داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔پا نی کے بحران کی پیش گوئی
سائنسدانوں نے گذشتہ 50سا لوں کے اعداد و شمار اور آئیندہ 50سا لوں کے خد شات کو سامنے رکھ کر پیش گوئی کی ہے کہ چند سا لوں کے اندر دنیا میں پا نی کا بحران آئے گا اور یہ ایسا شدید بحران ہو گا کہ لو گ توا نا ئی کے بحران سمیت تما م بحرا نوں کو بھو ل جا ئینگے ہم نے سکول کے زما نے سے پڑھا اور دیکھا ہے کہ دنیا میں کر ہ ارض یعنی ہمارے سیا رے زمین کا دو تہا ئی حصہ پا نی اور ایک تہا ئی حصہ خشکی پر مشتمل ہے درست اعداد دو شما ر کے مطا بق 70فیصد پا نی اور 30فیصد خشکی ہے پا نی کا 97فیصد سمندروں میں بہتا ہے جو کھا را ہو نے کی وجہ سے نبا تات، حیوا نا ت اور انسا نی آبادی کے لئے نا قا بل استفادہ ہے کسی کے استعمال میں آنے کے لائق نہیں ہے گویا دستیاب پا نی کا صرف 3فیصد حصہ دنیا کی سات ارب آبادی کے ساتھ اربوں کی تعداد میں پر ند، چرند اور نبا تات کی ضروریات پوری کرتا ہے سائنسدا نوں نے دو موٹے موٹے شواہد کی بنیاد پر پا نی کے بحران کی پیش گو ئی کی ہے پہلی شہا دت یہ ہے کہ دنیا کے تما م خطوں میں سر سبزاور آباد زمینات صحرا وں میں بدلتے جا رہے ہیں اس کو ”ڈیزرٹی فیکشن“ یعنی صحرا زدگی کا عمل کہا جا تا ہے آباد رقبے میں اتنا اضا فہ نہیں ہو رہا جتنا اضا فہ بنجر ہونے والے رقبے میں دیکھا جا رہا ہے دوسری شہادت یہ ہے کہ دنیا کے 85فیصد شہروں میں نلکوں کا پا نی پینے کے قابل نہیں رہا،پینے کے لئے الگ ٹینکر اور الگ بو تلوں کا پا نی خریدنا پرٹا ہے جو پینے کے ساتھ ساتھ خوراک میں بھی کا م آتا ہے دونوں شہا دتیں ایسی ہیں جو سائنسدانو ں کے ساتھ ساتھ عام آدمی اور عمو می طور پر تما م شہریوں کے تجربے میں آرہی ہیں فرق یہ ہے کہ عام شہری کے پاس اعداد و شمار نہیں ہیں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک منٹ میں 23ایکڑ زمین کا رقبہ صحرا زدگی کا شکار ہورہا ہے اکیسوی صدی کے وسط یعنی 2050ء تک مو جو دہ آباد رقبے کا ایک چوتھا ئی یعنی 25فیصد حصہ بنجر ہو جا ئے گا جس کی وجہ سے زرعی پیداوار بھی متاثر ہوگی جنگلات کا رقبہ بھی متا ثر ہو گا، چرا گا ہیں بھی متا ثر ہو نگی ایک محتاط اندازے کے مطا بق 2025تک دنیا کی سوا ارب کے قریب آبادی کو پا نی کی قلت کا سامنا ہو گا 2045تک ایک ارب 35کروڑ آبادی پا نی کی شدید قلت سے دو چار ہو جائیگی جبکہ مزید 3ارب کی آبادی پا نی کی قلت کے دباؤ میں زندگی گزاریگی سائنس کی بنیاد پر کہا نیاں، افسا نے اور نا ول لکھنے والے ادیبوں نے اور دا نشوروں نے ابھی سے اگلی صدی کے جو نقوش اپنی تخلیقات میں دکھا ئی ہیں ان میں ایسے منا ظر دیکھے جا سکتے ہیں کہ ایک کنویں پر ایسے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں کہ ایک کنویں پر ہزاروں افراد کا ہجوم ہے جس کو ایک بو تل پا نی ملتا ہے وہ خو شی سے پھو لے نہیں سما تا، ایسے ڈائیلاگ یا مکا لمے بھی لکھے گئے ہیں جن میں اپنے ہمسایے کو کپڑے دھو تے ہوئے دیکھ کر ایک خا تون حیرت کا اظہار کریگی کہ تم نے پا نی کہاں سے لایا ہے؟ اس طرح کے مکا لمے بھی نظر سے گذر تے ہیں کہ سکول میں ایک بچہ پا نی کی بوتل لے کر آئیگا تو سارے بچے اس کو رشک کی نظر سے دیکھینگے کتنے ما لدار گھرا نے کا بچہ ہے جو پا نی کی بو تل لیکر سکول آتا ہے! اس وقت ہمارے پیارے ملک پا کستا ن کے اندر پا نی کی قلت کے جو آثا ر نظر آتے ہیں وہ مستقبل کے بڑے خطرے کی نشان دہی کرتے ہیں ما ہرین نے اندازہ لگا یا ہے کہ پا کستان کے 80فیصد رقبے کو صحرا زدگی یا بنجر ہونے کا خطرہ درپیش ہے ایک طرف بڑے بڑے برف زار یا گلیشر پگھل کر ختم ہورہے ہیں دوسری طرف ندی نا لوں اور دریا ووں کا پا نی آلود گی کے باعث قابل استعمال نہیں رہتا، صاف پا نی کے ذخا ئر کی شدید کمی ہے تیسری طرف شہری اور صنعتی آلود گی کے سبب سے سمندروں کا پا نی اتنا آلو دہ ہوا ہے کہ مچھلیوں اور مرغا بیوں سمیت سمندری حیات اور مینگرو سمیت آبی نبا تات کے لئے زہریلے مواد سے بھر گیا ہے ما ہرین کی ان اراء کو سامنے رکھ کر 1400سال پہلے قرآن پا ک میں آنے والی پیشگو ئی کی صداقت پر منکر ین کو بھی پکا یقین ہو جا تا ہے سورہ روم آیت 41کا مفہوم یہ ہے کہ ”خشکی اور پا نی میں انسا ن کے برے کر توتوں کی وجہ سے فساد بر پا ہو اتا کہ ان کو سبق سکھا یا جا سکے اور وہ اپنے کر تو توں سے باز آجائیں“ مو جو دہ صدی اور آنے والی صدی کے لئے پا نی کے بحران کی پیش گو ئی اس بات کا تقا ضا کر تی ہے کہ ہم پا نی کے استعمال میں احتیاط کے ساتھ صبر و شکر کی عادت ڈالیں اور آنے والے بحرا ن کے لئے تیار ی کریں۔