دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”اب جبکہ ”
اب جبکہ سورج مشرق سے نکلتا ہے مجھے قیامت کا انتظار کیوں۔۔اب جبکہ چاند کی پھیکی پھیکی چاندنی میرے آنگن میں بھی کھیت کرتی پے مجھے راتوں کی سیاہی کا پقین کیوں ہو۔اب جبکہ بہار آنے کا مجھے پورا یقین ہے مجھے خزان سے ڈر کیوں لگے۔اب جبکہ کچھ مائیں اپنے بچوں کو خود دودھ پلاتی ہیں اس لیے محبت کے دنیا سے سراپا اٹھنے کا اعتبار کیوں ہو۔اب جبکہ گنتی کی چند بیٹیاں چادر اوڑھ رہی ہیں مجھے کی موت کا اندیشہ کیوں ہو۔۔اس لیے بہت ساری باتیں گمان کی سرحدوں تک ہیں یقین کے شہر میں داخل نہیں ہوں اس لیے میرے تبصرے میرے اندیشے میرے تاثرات ادھورے ہیں۔۔میں کوئی سیاست دان تھوڑی ہوں کہ سبز باغ دکھاوں۔میں کوئی انتظامیہ کا آفیسر نہیں کہ ہلکی سی دھمکی دوں اور انجام کا بتاوں۔میں کوئی ماں ہوں کہ ڈھیر ساری دعائیں دوں۔۔میں کوئی باپ تھوڑی ہوں کہ تمہارے مستقبل کا خواب دیکھا کروں۔میں کوئی استاد تھوڑی ہوں کہ انجام سے ڈراوں۔میں عوام میں سے عام سا ہوں۔بس میں اپنے سامنے حالات کا اندازہ کرتا ہوں۔خیر میری سمجھ ہی کیا ہے۔میرے شعور کی رسائی ہی کیا ہے۔مجھے اتنا پتہ ہے کہ قرب قیامت میں سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔باقی نشانیاں جو بزرگ بتاتے ہیں پوری ہیں۔وفا،خلوص،ہمدردی،شرافت،اق اقدارنظر نہیں آتے۔ مجھے کیا پتہ کہ عوام کو کھانے کو لقمہ میسر نہ ہو تو قیامت ٹوٹے گی۔عدالتوں میں انصاف کا جنازہ نکالے جائے تو قیامت آیے گی۔مجھے یہ نہ کہنا کہ حکمران عوام سے بے خبر ہیں۔تو قیامت کی نشانی ہے۔ہر طرف مایوسی ہے تو یہ قیامت ہے۔مجھے اندازہ نہیں۔بالکل نہیں۔۔اب جبکہ وطن عزیز میں باد صباء چلتی ہے۔باد نسیم کہیں سے خوشبو لاتی ہے بادل آتے ہیں برکھا رت آتی ہے۔۔ساون ٹوٹ کے برستا ہے۔دریا موجیں مارتے ہیں۔ابشار جہرنے دیتے ہیں۔ہمارے حصے کے ستارے ٹوٹتے نہیں ٹماتے ہیں ضو دیتے ہیں۔ستارہ سحری شادمانی کا اشارہ کرتا ہے تو کیا مایوسی ہوگی۔۔اچھے وقتوں کا انتظار ہے آیے گا ضرور آیے گا۔ہماری امیدوں کی ڈوریاں جہان ٹوٹتی ہیں وہاں پر پھر سے امید کاستارہ چمکتا ہے۔اب جبکہ ہم زندہ ہیں مایوس کیوں ہوں