داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔تقریری مقا بلہ
ملک کے نا مور اور مشہور تعلیمی اداروں میں مبا حثے اور تقریری مقا بلے کے لئے طلبااور طا لبات کو پر وگرام سے5منٹ پہلے مو ضوع دیا جا تا ہے 5منٹ کے اندر اپنا ذہن بنا کر نا م لکھوا نا پڑ تا ہے پھر روسٹرم سے نا م پکا ر نے پر ہر ایک کو فی البد یہہ اظہار خیال کر نا پڑتا ہے اس میں طا لب علم اور طا لبہ کی ذہنی استعداد، قابلیت اور بولنے کی صلا حیت سامنے آتی ہے لا ہور، مری، اسلا م اباد اور نو شہر ہ کے معیا ری پرائیویٹ سکولوں میں اس پر عمل ہوتا ہے اور یہ سب کے علم میں ہے لیکن سر کاری سکولوں اور کا لجوں میں اس پر عمل نہیں ہوتا سر کاری سکولوں اور کا لجوں میں مبا حثہ یا تقریر ی مقا بلہ ہو تو اساتذہ کی لکھی ہوئی تقریریں طلبہ کو رٹہ کے ذریعے یا د کروائی جا تی ہیں اصل مقا بلہ طلبہ کے درمیان نہیں ہو تا بلکہ اساتذہ کے درمیان ہو تا ہے بارہ ربیع الاول کو ایک بڑے نشر یاتی ادارے میں تقریری مقا بلہ کے منصف حضرات پر اُس وقت کڑی ازما ئش آئی جب ایک سکول سے ساتویں جما عت کی طا لبہ روسٹرم پر آئی اس کو جو تقریر لکھ کر دی گئی تھی وہ شستہ ادبی زبان میں تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس میں محفل میلا د کے ساتھ ساتھ 12ربیع الاول کی اہمیت کو بھی چیلنج کیا گیا تھا لکھنے والے نے تاریخ طبری، تاریخ مسعودی، تفسیر ابن کثیر اور صحیح بخا ری کے حوالے جا بجا لکھے ہوئے تھے یہ تقریر کسی بھی طرح ساتویں جما عت کے طا لبہ کی تقریر نہیں لگتی تھی تا ہم طا لبہ نے اس کو خوب یا د کیا تھا آ نکھوں اور ہاتھوں کے اشاروں سے بھی خوب کام لیتی تھی سامعین اور حا ضرین سے باربار داد وصول کر تی تھی کسی بھی منصف یا جج کے لئے اس کو نظر انداز کرنا مشکل تھا مو ضوع سے ہٹ کر بولنے پر اس کو نظر انداز کرنا پڑا ساتھ نوٹ بھی لکھنا پڑا کہ لکھنے والے نے مو ضوع کو نظر انداز کیا ا س لئے طا لبہ کے نمبر کم آئے ہمارے دوست پرو فیسر شمس النظر فاطمی نے ایک بار ارباب بست و کشاد کی مو جود گی میں تجویز دی کہ سر کاری سکولوں میں تقریری مقا بلے لا ہور اور مری کے تعلیمی اداروں کی طرح فی البدیہہ کر ائے جائیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسا تذہ کی لکھی ہوئی تقریروں کا مقا بلہ بند کیا جائے اس کا کوئی فائدہ نہیں ایک بڑے پر و گرام کے مو قع پر ان کو بحیثیت منصف یا جج اظہار خیا ل کی دعوت دی گئی تو انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ اس مقا بلے کی 8تقریروں میں سے 4میر ی لکھی ہوئی تھیں اور 4عبید الرحمن کے قلم کے شہکار تھیں 3ججوں میں سے دو جج وہ لو گ تھے جن کی لکھی ہوئی تقریر وں کا مقا بلہ تھا حا ضرین سے داد سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا میں نے دو تقریر یں مو ضوع کے حق میں اور دو تقریریں ایوان کی رائے کے خلا ف لکھ کر دیئے تھے میرے دوست عبید الرحمن کا طریقہ واردات بھی اس سے مختلف نہ تھا اگر صو بائی اور ضلعی سطح کے حکام کسی جگہ مل بیٹھیں مشا ورت اور میٹنگ کریں پھر فیصلہ کریں کہ لا ہور اور مری کے مشہور تعلیمی اداروں کی طرح سرکاری سکولوں میں بھی تقریری مقا بلہ یا مبا حثہ کے لئے مو ضوع پرو گر ام سے 5منٹ پہلے دیا جا ئے گا طلبا اور طا لبات فی البدیہہ تقریروں کے ذریعے فن کا مظا ہر ہ کرینگی تو اس فیصلہ سے تعلیمی نظام میں ہم نصا بی سر گر میوں کو نئی زند گی اور نئی جہت ملے گی طلباء اور طا لبات کی صلا حیتیوں کو جا نچنے کا مو قع ملے گا تقریری مقا بلہ صحیح معنوں میں تقریری مقا بلہ ہو گا اس پر جھوٹ اور فریب کا ملمع نہیں ہو گا۔