مقدس فیتہ َ َ,,,,,,,,شمس الرحمن تاجک
اسٹیج گرم چشمہ کے پولو گراؤنڈ میں لگا تھا،مجمع بھی اس زمانے کی آبادی کے حساب بہترین تھا۔ زندہ باد کے نعروں سے گرم چشمہ وادی گونج رہی تھی۔ میں اس وقت نویں کلاس کا طالب علم تھا کچھ دن سے اردو کے نئے استاد نے ایک نیا طریقہ ورادات شروع کیا تھا کہ ہر روز ایک مضمون لکھ کر لانا ہے۔ مذکورہ دن ہوم ورک کے طور پر ”مادر ملت“ پر مضمون لکھنے کو ملا تھا۔ ہم اسکول کے دروازے سے باہر آئے تو باہرسیاسی گہما گہمی عروج پر تھی ہر سو ”مادر ملت“ کے نعرے گونج رہے تھے۔ بتایا گیاکہ آج ”مادر ملت“ گرم چشمہ تشریف لارہی ہیں یہ نعرے بازی اسی سلسلے میں ہورہی ہیں۔ اسکول کے نصابوں میں اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ کسی زندہ انسان کی بھی تعریف کی گئی ہو۔ تعریفی مضمون لکھنا بہت دور کی بات۔ پھر ہمیں کیوں قومی مزاج کے مخالف ایک زندہ انسان کے بارے میں مضمون لکھنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔مگر آج حیرتوں کا شکار ہونے کا دن تھا ہمارے نصاب میں بھی زندہ انسانوں کے بارے میں کچھ موجود تھا اور وہ ہستی آج گرم چشمہ تشریف لارہی تھیں۔یہ سوچ کر ہی عجیب سی بے کلی ہونے لگی تھی۔
اسٹیج پر کھڑا شخص ”مادر ملت“ کا نعرہ لگا رہا تھاہم کیسے اس جلسے کو مس کرتے ہمیں مادر ملت پر مضمون جولکھنا تھا۔ جب ”مادر ملت“ اسٹیج پر آکر براجمان ہوگئیں تو اسٹیج والے شخص نے ایسی تعریفیں شروع کردیں کہ شرم سے مادر ملت بھی پانی پانی سی ہونے لگیں باقی لوگوں کا اس سے بھی برا حال تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ شرم سے پانی پانی والی کیفیت کا اپنے مضمون میں ذگر کروں یا پھر جنونی کیفیت کے شکار جوان کے منہ سے برآمد ہونے والے ایسے الفاظ کا،جس کی وجہ سے ماحول گرم ہونے کے بجائے شرم محسوس کرنے لگا تھا۔ نادانی کے دن تھے، مادر ملت کی آمد سے لے کر اسٹیج والے شخص کی کیفیت اور جلسہ گاہ میں موجود لوگوں کی حالت سب ہی کچھ اپنے مضمون میں لکھ ڈالا۔ اپنی حالت کا اندازہ اگلے دن ایک گھنٹے جولائی کے دھوپ میں ننگے سر اور ننگے پیر کھڑے ہوکر سزا سہنے کے بعد ہوا کہ وہ خاتون ”مادر ملت“ نہیں تھیں بلکہ اسٹیج پر کھڑے شخص نے کسی بینک میں ملازمت کی درخواست دی تھی۔ ان کو ملازمت دی گئی اور ہمیں غلط شخصیت پر مضمون لکھنے کی سزا۔
وقت گزرتا رہا ہمیں جلسوں میں جانا پسند نہیں ایسے ہی کبھی کبھار دوستوں کی فرمائش پر کچھ جلسوں میں جانے کا اتفاق ہوا مگر ایسی کسی انہونی سے واسطہ نہیں پڑا۔ مگر امسال وزیر اعلی محمود خان کے دورہ چترال کے دوران پھر سے سینگور پل کے افتتاح کے موقع ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملے۔ مادر ملت والے جلسے میں ”نعرے“ تھے یہاں ایک ”فیتہ“ اٹک گیا ہمارے جی جان کو۔جو رسہ کشی اور طواف کا سلسلہ اس ”مقدس فیتہ“ کے لئے سرانجام دیا گیا الامان الحفیظ، وزیر اعلی صاحب آکر چلے بھی گئے ہم نے بسیار کوشش کی کہ اس فیتے کا کوئی ایک آدھ ٹکڑا ہی مل جائے جسے ہاتھ لگانے سے روکنے کے لئے پارٹی کی آدھی آبادی کو پولیس چیک پوسٹوں پر نظر بند کیا گیا اور زار بہار جیسے فقیروں کو پولیس لائن کی حوالات میں۔ مہینہ ہونے کو آیاوزیراعلی کے جانے کے بعد۔ مگر اس فیتے تک پہنچنے کی آرزو رکھنے والے افراددل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ بھڑاس ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس بھڑاسی ماحول میں چترال کا کتنا نقصان ہوا اس کا نہ تو اندازہ ہے اور نہ کسی کو فکر۔ بس ہمیں ”فیتہ“ اٹک گیا ہے، اتنا زیادہ کہ کبھی کبھی ہم جیسے سادہ لوگ بھی راتوں کو اٹھ کر اپنے ہی گھر میں ”مقدس فیتہ“ ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔
وزیر اعلی صوبے کا سربراہ ہوتا ہے۔ اختیارات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین سال کے اندر سوات کے ان علاقوں میں بھی ہائی ویز بنا چکے ہیں جہاں انسانوں کا اگلے دو سو سالوں میں بھی آباد ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ رہنما کو زمینی حقائق کا پتہ ہوتا ہے وزیر اعلی کو بھی معلوم ہے کسی علاقے کی ترقی میں مواصلات کا نظام کتنا اہم ہوا کرتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے آبائی علاقوں کو ہر سہولت سے مزین کرتے جارہے ہیں۔ یہ ان کی لیڈرشپ اور دور اندیشی کا نتیجہ ہے کہ وہ ہر ترقیاتی کام کا رخ اپنے علاقے کی طرف موڑ رہے ہیں۔ ذاتی طور پر میں حیرت اور کچھ حد تک غصے کا بھی شکار تھاکہ وزیر اعلی ہمارے علاقے میں کسی بھی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کے سلسلے میں کچھ بھی نہیں کررہے ہیں میری نظر میں یہ ان کا علاقائی تعصب تھا مگر حالیہ دورے کے دوران پتہ چلا کہ چترال کا کیس لڑنے والا کوئی موجود ہی نہیں ہے۔ ہماری لیڈرشپ چترال کا کیس لڑنے کے بجائے فیتہ پکڑنے کی لڑائی اور آپس میں ایک دوسرے کی عزت افزائی میں لگے ہوئے ہیں۔
وزیر اعلی آئے اور چلے بھی گئے مگر ہمارے لیڈر اب بھی اس ”مقدس فیتے“ کے سحر سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ جن کے ہاتھ وہ مقدس فیتہ لگا تھا وہ اب بھی ”کبھی فیتے کو اور کبھی اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہیں“ جیسی کیفیت کا شکار ہیں۔ جن کو اس مبارک فیتے سے دور رکھا گیا وہ غیر ضروری طورپر خرچ ہونے والے سرمائے کو رو رہے ہیں۔ اگر کسی ایک غم سے سب دور ہیں تو وہ ہے چترال کا غم، وزیر اعلی یقینا یہاں کسی بڑے مقصد کے تحت اور چترال کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے آئے ہوں گے مگر جب لگا کہ چترال والے ترقی نہیں صرف ”فیتہ“ چاہتے ہیں تو یہاں سے رخصت ہونے کے اگلے دن سوات موٹر وے کے دوسرے فیز کے افتتاح کا اعلان کردیا جو کہ ہماری لیڈرشپ کی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آج آپ سب سے ایک گزارش کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں کہ اگر کسی کے پاس اس ”مقدس فیتے“ کا کوئی ٹکڑا موجود ہے تو ہمیں بھی دیدار کرادے کم از کم ہم ہی اس سحر سے نکل سکیں جس کا شکار چترال کی پوری قیادت ہوگئی ہے۔