داد بیداد ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔زوال
ما ضی پر ستی ایک بیما ری ہے اس نفسیا تی عارضے کو انگریزی میں نا سٹلجیا کہتے ہیں اس بیما ری کا مریض زما نہ حال سے نا لا ں رہتا ہے ما ضی کو یا د کر تا ہے اور ہر وقت ما ضی کی یا دوں میں کھو یا رہتا ہے اگر آپ کہدیں آج مو سم خو شگوار ہے تو وہ 100سال پہلے کے مو سم کی کہا نی سنا ئے گا آپ اگر کہہ دیں آج پا کستان کو بڑی کا میا بی ملی ہے تو وہ 50سال پہلے کی کسی کا میا بی کا قصہ لے کر بیٹھ جا ئے گا اس کو زما نہ حال کے ہر بڑے کا م سے زما نہ ما ضی کا چھوٹا واقعہ بھی اچھا لگیگا آج کل یہ بیما ری بہت عام ہے شہر کے بڑے محلے کے لو گوں کو عوامی مسا ئل کے حل پر تجاویز دینے کے لئے مقا می سکول کی عما رت میں بلا یا گیا سر کاری حکا م اور اخبار نویس بھی مو جو د تھے محلے کے 20عما ئدین کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی ان میں سے 18عما ئدین نے اپنی تقریروں میں گذرے ہوئے دور کے ملک صاحبان، جا جی صاحبان، مولوی صاحبان اور بی ٹی کے ممبروں کا ذکر کیا ان کی تقریر وں کا خلا صہ یہ تھا کہ ہمارا محلہ قیا دت سے محروم ہے مو جو دہ قیا دت مسا ئل حل کرنے میں نا کام ہوگئی ہے جن دو معززین نے ما ضی کی ”درخشان روایات“ کا ذکر نہیں کیا ان کا تعلق ”مو جودہ قیادت“ سے تھا یہ ایک محلے کی کہا نی نہیں ہر گاوں کی کہا نی ہے سطح سمندر سے 9000فٹ کی بلندی پر واقع پہا ڑی گاوں کی آبادی اگر ایک ہزار نفوس پر مشتمل ہے تو ان میں سے 900لو گ گذر ے ہوئے ممبروں اور ملکوں کو یا د کر کے مو جو دہ قیا دت پر نفریں بھیجتے ہیں شہر کے محلے میں واقع سکول کی تقریب میں باہر سے آیا ہوا مہمان بھی بیٹھا تھا مہمان جہا ندیدہ اور تجربہ کار تھا اُس نے محلے کے عما ئدین کی اجا زت سے اظہار خیال کر تے ہوئے بڑے پتے کی ایک بات کہی اُس نے کہا آپ لو گ اللہ پاک کا شکر ادا کریں آپ کو آزاد وطن ملا ہے ہمارے اباو اجداد غلا می کی زند گی گزار کر فوت ہوئے آپ مو جو دہ دور کی جن محرومیوں کا ذکر کر تے ہیں ان کا تعلق صرف آپ کے محلے سے نہیں یہ محرومیاں ہر شہر، ہر گاوں اور ہر محلے میں پا ئی جا تی ہیں وجہ یہ ہے کہ ہمارا طرز بود وباش بدل گیا ہے ہماری ضروریات بڑھ گئی ہے 100سال پہلے یا 50سال پہلے ایسی ضروریات نہیں تھیں بجلی اور گیس کے مسا ئل نہیں تھے وائی فائی اور فو جی کا نا م کسی نے نہیں سنا تھا نہ ڈالر کے ریٹ سے کسی کو سرو کارتھا نہ سٹاک ایکسچنج سے کسی کا لینا دینا تھا ہم کو مو دہدہ دور کی بیش بہا نعمتوں پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چا ہئیے مہمان مقرر نے اگر چہ تصویر کا دوسرا رخ سامنے رکھ دیا لیکن یہ بھی پورا سچ نہیں زوال آیا ہے اور زوال کی رفتار بڑھ رہی ہے مختار مسعود کی کتاب آواز دوست 1976ء میں پہلی بار شائع ہوئی اسکا ایک باب ”آٹو گراف بک“ ہے مصنف لکھتا ہے کہ میرے والد کی وصیت تھی ہر کسی کا آٹو گرا ف نہ لیا کرو صرف بڑی شخصیات کا آٹو گراف لیا کر و انہوں نے 1976ء میں آٹو گراف بک کو بند کیا وہ لکھتا ہے کہ زمین بانجھ ہو گئی ہے دھر تی نے عظیم شخصیات پیدا کر نا بند کردیا ہے وہ ایوب خا ن اور بھٹو کی حکو متوں میں بڑا افسر تھا مگر اُس نے ایوب خا ن اور بھٹو کا آٹو گراف نہیں لیا وہ لکھتا ہے کوئی ٹا ئن بی اور عطا ء اللہ شاہ بخا ری جیسی شخصیت نظر آتی تو آٹو گراف بک کو بند نہ کر تا محلے کے بزرگ اپنے محلے میں قیا دت کے زوال کا رونا رورہے تھے ہم نے سوچا پورے ملک کی قیا دت زوال کے دور سے گذر رہی ہے عالم اسلا م کی قیا دت زوال پذیر ہے محمد علی جناح، علا مہ اقبال، سلطان محمد شاہ آغا خا ن سوم، نواب بہا در یا رجنگ، عطاء اللہ شاہ بخا ری جیسے نا بغہ روز گار لو گ پھر پید انہیں ہوئے سوئیگا ر نو اور مصطفٰے کمال اتاترک جیسے لیڈر پیدا نہیں ہوئے دنیا کے نقشے پر نظر دوڑا ئیں تو فیڈ ل کا سترو عظیم شخصیات کی فہرست کا دوسرا آخری شخص تھا ان کے بعد صرف نیلسن منڈیلا آیا اور عظیم شخصیات کا باب بند ہوا بات ہمارے ملک، محلے اور گاوں پر ختم نہیں ہو تی پوری دنیا بانجھ پن کا شکار ہے عالم اسلا م پر بھی بانجھ پن طاری ہے۔