*نیشنل بنک اور آرٹسٹ: تصویر کا دوسرا رخ*تحریر احتشام الرحمن
پچھلے کچھ دنوں سے افتخار صاحب اور نیشنل بنک کے منیجر کے درمیان پیش آنے والا معاملہ سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے. اس معاملے نے نہ صرف چترال کے سوشل ایکٹیوسٹس بلکہ ملکی سطح کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو فعال کردیا. مشہور زمانہ سوشل میڈیا سینسیشن جبران ناصر بھی افتخار صاحب کی حمایت میں میدان میں اترے.
بحیثیت ایک ذمہ دار شہری اس معاملے پر کچھ لکھنے سے پہلے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس پر پراپر ہوم ورک کروں اور مکمل تحقیق کے بعد اپنا نقطہ نظر پیش کروں.
اس سلسلے میں سب سے ضروری بات سی سی فوٹیج تک رسائی تھی. سی سی فوٹیج میں جو ریکارڈ ہوا ہے اس کے مطابق ”افتخار اپنے ایک دوست کے ساتھ بنک میں داخل ہوتا ہے اور چیک اپریشن منیجر کو دیتا ہے. اپریشن منیجر کے ساتھ برانچ منیجر بھی موجود ہے. ان کے درمیان کچھ گفتگو ہوتی ہے اور اسی اثنا میں افتخار صاحب تیش میں آکر میز سے اسٹمپ/اسٹپلر اٹھا کر منیجر کو مارنے کے لئے اٹھتے ہیں. اس پر اپریشن منیجر آٹھ کر باہر جاتے ہیں اور پولیس کو بلا کر لاتے ہیں جو افتخار کو لیکر باہر جاتے ہیں.” ایک اور کیمرے کی ویڈیو سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ”افتخار صاحب پولیس پر بھی اسی طرح برہم ہیں.”
یہ وہ مناظر تھے جو کیمرے میں ریکارڈ ہوئے ہیں.
اب میں نے اس میں موجود بنک عملے اور کچھ کسٹمرز, جو اپنے کام کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے, سے اس واقعے کے متلعق پوچھا.
بنک منیجر کے مطابق ڈی سی آفس کی طرف سے افتخار کے کام کے معاوضے کا چیک دیا گیا تھا جو وہ کیش کرنے آیا تھا. بقول بنک منیجر, اس نے ان سے کہا کہ یہ کیش نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کراس چیک ہے. اس پر افتخار نے بد زبانی کی. اس پر اپریشن منیجر باہر گیا اور بنک میں ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار کو لے آیا. یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ حکومت پاکستان کی طرف سے بنک اور بنک کے عملے کی حفاظت کے لئے چھ اہلکاروں پر مشتمل ٹیم ہوتی ہے جو چیسٹ برانچ کو مہیا کی جاتی ہے.
اب آتے ہیں تشدد والے معاملے کی طرف:
میڈیا میں جو خبر گردش کر رہی ہے اس کے مطابق یہ لگتا ہے کہ افتخار صاحب کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا اور اس کو حوالات میں بند کر کے اس پر جسمانی تشدد کیا گیا.
موقع پر موجود کسٹمرز کے مطابق پولیس کا ایک محرر آیا اور اس نے برانچ منیجر سے درخواست کی کہ ”یہ اسٹوڈنٹ ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے کو صلح کے ذریعے حل کیا جائے. کیونکہ اگر پرچہ کٹے گا تو اس کا مستقبل خراب ہو گا.” خیر یہ فیصلہ ہوا اور منیجر نے بھی اعلی ضرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہوئے نہ صرف معاف کیا بلکہ چیک بھی کیش کرایا.
اب یہاں پر افتخار اور بنک منیجر دونوں سے ایک غلطی ہوئی ہے.
بنک منیجر نے رولز کو پامال کرتے ہوئے ایک اسٹوڈنٹ کو نہ صرف سروس دی بلکہ اپنی نوکری کو بھی خطرے میں ڈال دی. اس کو چاہئے تھا کہ وہ نہ صلح کرتا نہ ہی افتخار کو فیسیلیٹیٹ کرتا.
افتخار سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے اس ”بد اخلاق منیجر” سے نہ صرف معافی مانگی بلکہ پیسے بھی کیش کر کے لے گیا. ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ اس چیک کو ان کے منہ پر مارتا اور دھرنا دیتا اور بنک منیجر کے خلاف کوئی اقدام اٹھاتا. اس ساری صورت حال کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں تشدد والا معاملہ تو ہے ہی نہیں کیونکہ بنک میں ایسا کوئی جگہ نہیں جہاں لے جا کر اس پر تشدد کیا جاتا. دوسری بات چترال پولیس کی تو وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ فریقین کے درمیان صلح ہو اور یہ ہماری سسٹم ک حصہ بھی ہے کہ معاملہ عدالت اور کچہری سے باہر ہی حل ہو.
اب آتے ہیں ہمارے قومی ہیرو اور اثاثہ جناب افتخار کی طرف. اگر وہ قومی اثاثہ ہیں تو بنک منیجر نے بھی دن رات محنت کر کے اس مقام تک پہنچا ہے. اس طرح پولیس کا سپاہی کی بھی عزت ہوتی ہے. اس کے لئے یہ کہنا کہ ”میں جغور ک باسی نہیں اگر میں نے تمہیں عبرت کا نشان نہ بنایا”.
بے شک افتخار ہمارے قومی ہیرو ہیں اور اس کا کیس بھی جینیون ہے لیکن ویڈیو اور عینی شاہدین کے مطابق جو رویہ اس نے اختیار کیا ہے وہ اس کے لیول کے ایک آرٹسٹ کو زیب نہیں دیتا. ایک آرٹسٹ تو کول ماینڈڈ ہوتا ہے. اس میں اور بنک کے سیکیورٹی گارڈ کے روئے میں فرق ہونا چاہیے.
اور جو لوگ افتخار کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ ایک فنکار کی زندگی کو برباد نہ کریں. وہ اپنے فن کے ابتدائی مراحل میں ہے. اس کو اس طرح کے کاموں سے دور رکھنا چاہئے تاکہ اس کا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آئے نہ کہ ایسے کاموں میں ضائع ہو جائے.
نوٹ: سی سی فوٹیج بنک میں موجود ہے اور اس کی فارنزک رپورٹ بھی کچھ دنوں میں آجائے گی. کوئی اگر چاہے تو بنک جا کر وہ ویڈیو دیکھ سکتا ہے.