دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاویدحیات۔۔۔۔ہمارا ہردن ”یوم دفاع“ہے

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاویدحیات۔۔۔۔ہمارا ہردن ”یوم دفاع“ہے
دشمن کا مکار،طاقتور،نڈر اور مضبوط ہونا بھی نعمت سے کم نہیں کیونکہ ان کے مقابلے میں مضبوط طاقتور اور نڈر ہونا پڑتا ہے۔اس لیے کے ہر ابو جہل کے مقابلے میں شیر خدا کو اٹھنا ہوتا ہے اس لیے قران عظیم الشان نے فارمولہ دیا۔۔جتناہوسکے طاقت حاصل کرو۔۔اپنے گھوڑوں کوموٹے تازے رکھو۔۔۔اپنے اور اللہ کے دشمنوں پر رعب ڈالو۔۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ حق و باطل ٹکراتے رہے ہیں اور یہ کشمکش تا قیامت جاری رہے گی۔ہم نے بے شک انگریزوں سے آزادی حاصل کر لی لیکن ہندوؤں سے اپنا حق چھین لیا تھا ہماری جد و جہد آزادی میں ان کی بہت ثانوی حیثیت تھی۔جب ہندوستان کے بٹوارے کی بات ہو رہی تھی تو گاندھی نے کہا تھا کہ یہ ایک دیوانے کی بڑھ ہے اس کے جواب میں جناح نے کہا تھا کہ دیکھو دیوانے کیا کر دیکھاتے ہیں۔۔ہندوستان کی تقسیم کیوقت ہی کئی سرحدوں پر تنازعے چھوڑے گئے تھے ان میں مشرقی پنجاب، کشمیر، رن اف کچھ وغیرہ شامل تھے۔ان سرحدوں پر تنازعہ مسلسل رہتا۔سن پینسٹھ شروع ہوتے ہی ان تنازعات میں شدت آگئی ہندوستان نے رن اف کچھ میں بلا جواز پرانے تنازعے اٹھایا جب منہ کی کھائی تو شاستری نے اپنی 22 فروری سن پینسٹھ کی نشری تقریر میں کہا کہ ہم اب اپنی مرضی کامحاذ کھولینگے۔ہمیں دشمن کے عزائم کا یقین نہیں آیا البتہ ہم نے اپنے جانبازوں کو ہوشیار کیا۔۔آخر 6ستمبرکی وہ رات بھی آگئی جب دشمن کا ٹیڈی دل لشکر ناشتہ کرنے لاہور سیالکوٹ جسٹر اور موناباو وغیرہ کی سرحد پر پہنچ گئے۔اس وقت تک قوم بے خبر تھی مگر جانبازوں کے ہاتھوں میں بندوقیں چمکنے لگی تھیں۔ادھر مسجدوں میں اللہ اکبر کی صدایں بلند ہو رہی تھیں ادھر محاذوں پر توپیں اور رافلین چیخ رہی تھیں پاک دھرتی پکار رہی تھی۔۔۔”اب وقت شہادت ہے آیا” لاہور کے محاظ پر میجر شفقت کو اس کا کمانڈر کال کرکے کہتا ہے۔۔۔بیٹا!صرف دوگھنٹے دشمن کو روکے رکھو تو قوم پر تمہارا احسان عظیم ہوگا۔۔لیکن صبح سات بجے شفقت ہنستے ہوئے کال کرتا ہے۔۔سر! چار گھنٹے ہوگئے دشمن ایک انچ بھی پاک دھرتی کے اندر نہ آسکا۔بیرونی نمایندہ جب اس محاذ پر پہنچتا ہے تو اس کو پاک فوج کے جانباز مسکرا کر گلے لگاتے ہیں وہ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے۔۔۔یہ لوگ زندگی سے زیادہ موت سے پیار کرتے ہیں۔سارے دن کی لڑائی میں دشمن منہ کی کھاتا ہے۔۔میجر عزیز بھی اس محاذ میں جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ سات ستمبر کا دن فضا کے شاہینوں کا دن ہے ایم ایم عالم 52سیکنڈ میں پانچ جہاز مار گراتے ہیں۔سکوارڈن لیڈر سرفراز فیقی اور ضمیر الدین پاک سر زمین پر قربان ہوتے ہیں۔۔ملک نور خان اور اصغر خان دشمن کو تھس نہس کر دیتے ہیں۔ زمین پر پوری قوم لڑتی ہے چونڈہ محاذ پر 500 ٹینک اکھٹے حملہ اوور ہوتے ہیں یہ جنگ عظیم کے بعد دنیا میں ٹینکوں کی دوسری بڑی لڑائی تھی اٹھ جانباز پہلی دفعہ اپنے بدن کے ساتھ بم باندھ کر موٹر سایئکلوں پر ان کی طرف دوڑتے ہیں دنیا کی تاریخ میں پہلا خود کش حملہ کرتے ہیں اور چوندہ کو دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنا دیتے ہیں۔بحری بیڑا پی این ایس غازی دشمن کو ششدر کرکے رکھ دیتا ہے ہمارے تجارتی جہاز آرام سے آتے جاتے ہیں دشمن کا جہاز” سرسوتی” ہمارے بندرگاہ پہ کھڑا ہے دشمن کے تجارتی جہاز حرکت نہیں کر سکتے۔۔پوری قوم محاذ کی طرف دوڑی ہے جوان بوڑھے مرد عورت مایں بہنیں بیٹیاں شاعر ادیب گلوکار کوئی فرد ایسا نہیں جس کے لب پہ نعرہ جنگ نہ ہو۔۔دشمن اپنی پسند کے محاذوں کیم کھرن،رن اف کچھ،چوندہ،جسر قصور،ماناباو وغیرہ میں جنگ ہار چکا ہے۔ہمارے پاس بے سرو سامانی ہے مگر غیرت ایمانی ہے ان کے پاس سامان وافر ہیں لیکن موت سے بھاگنے والے غیرت سے خالی ہیں۔آج کا دن قوم کے امتحان کا دن تھا ہم امتحان میں پاس ہو گئے تھے۔زندہ قوموں کا ہر دن امتحان کا دن ہوتا ہے۔بھٹو مرحوم کے وہ الفاظ قوم کے کانوں میں گونجتے ہیں۔۔میرا ملک میرا انتظار کر رہا میں جا رہا ہوں ہم لڑینگے۔۔۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے وہ الفاظ ” ہم لاالہ پر یقین رکھتے ہیں ہم لڑینگے ” یہ الفاظ قوم کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔اس قوم کا ہر دن یوم دفاع ہے۔۔یہ آزمائش کے لیے تیار قوم ہے۔۔ایوب خان کی وہ نشری تقریر لا الہ کا ورد کرکے اُٹھو اور دشمن کو نیست و نابود کردو۔۔۔ہندوستان کو پتہ نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارہ ہے۔ہم اس وقت تک لڑینگے جب دشمن کے توپ کا آخری گولی چلے اور وہ ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہوجائے” ہم لڑائی پسند ہیں ہم لڑینگے ہم لڑ رہے ہیں۔ہم مسلسل حالت جنگ میں ہیں کیونکہ اسی جد و جہد میں ہماری بقا ہے دنیا مانتی ہے کہ ہماری فوج دنیا کی لڑاکوترین اور بہادر فوج ہے۔ہم سیاسی لحاظ سے جیسے بھی ہیں لیکن آزمائش کی کسی بھی گھڑی میں ہم ایک ہیں۔ہمارا جینا مرنا پاکستان ہے ہماری شناخت اور آخری منزل پاکستان ہے۔۔ اللہ پاکستان کو سلامت رکھے