ہزاروں کی تعداد میں سیاح کالاش ویلی کی سیاحت کا ارمان لئے وادیوں کی طرف جانے کی کوشش کر رہیہیں۔ لیکن کھنڈر کچی اور تنگ سڑکوں کی وجہ سے نہ صرف سیاح پھنس کر رہ گئے ہیں بلکہ مقامی لوگ بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال (بیورورپورٹ) عید الفطر کے پہلے روز سے ہی ملک بھر سے سیاحوں کی چترال آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ اور ہزاروں کی تعداد میں سیاح کالاش ویلی کی سیاحت کا ارمان لئے وادیوں کی طرف جانے کی کوشش کر رہیہیں۔ لیکن کھنڈر کچی اور تنگ سڑکوں کی وجہ سے نہ صرف سیاح پھنس کر رہ گئے ہیں بلکہ مقامی لوگ بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ مین روڈ سے کالاش ویلی بمبوریت عام حالات میں ڈیڑھ گھنٹے کاراستہ ہے۔ لیکن اب یہ راستہ چھ سے آٹھ گھنٹوں میں طے کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یوں سیاح وادی کو جانے والی سڑکوں میں بغیر ہوٹلوں اور کھانوں کے رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ خوش قسمتی سے جو سیاح جہد مسلسل کے بعد کالاش ویلی پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا وہاں سے نکلنا بھی کوئی کم مشکل نہیں ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے جہاں حکومت کے بلند بانگ دعووں پر اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وہاں انہوں نے کہا۔ کہ یہ مقامی لوگوں کی بے حسی کی واضح مثال ہے۔ کہ وہ یہ سفری مصائب چپ چاپ سہہ رہے ہیں۔ اور اپنی مشکلات حکومت تک پہنچانے کیلئے آواز تک نہیں نکالتے۔ جس کی وجہ سے حکومت کے کانوں جوں تک نہیں رینگتی۔ کالاش ویلیز کی سڑکوں پر ٹریفک جاری رکھنے کیلئے بڑی تعداد میں ٹریفک وارڈنز اور پولیس کے جوان خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور یہ جوان راتوں کی نیند حرام کرکے ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ بصورت دیگر حالات مزید گھمبیر ہو سکتے ہیں۔ کالاش ویلیز روڈ پر سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیوں میں موجود سیاحوں نے ٹریفک بلاک ہونے کی وجہ سے روڈ پر ہی رات گزاری۔ کء منچلوں نے اسے پک نک کا حصہ قرار دے کر انجوائے کیا۔ تو کئی نے اسے اپنے اعمال بد کا نتیجہ قرار دیا۔ لاہور کے ایک نوجوان طالب علم نے کہا۔ کہ ہم نے ہنزا جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ لیکن شاہراہ ریشم میں کئی مقامات پر سیلاب اور لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے ہم نے چترال کی طرف رخ کیا۔ اور چترال پہنچ گئے۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے۔ کہ مین چترال پشاورث روڈ سے کالاش ویلی کو چلے چھ گھنٹے ہو چکے ہیں۔ وادی تک نہیں پہنچے ہیں۔ ہم ایک قدم آگے چلتے ہیں تو دس قدم واپس آنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ایک طرف سڑک خطر ناک ہے اور دوسری طرف انتہائی تنگ ہے۔ جس پر سے ایک وقت میں صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے۔ سامنے والی گاڑی کو راستہ دینے کی جگہ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ ان کے پاس کچھ سفری خوراک موجود تھے۔ جو کہ ختم ہو چکے ہیں۔ اب نہ جانے ویلی کی ہوٹلوں تک پہنچنے میں انہیں کتنے گھنٹے اور لگیں گے۔ انہوں نے کہا۔ کہ جگہ خوبصورت لوگ اچھے ہیں۔ لیکن حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔ ایک اور سیاح لاہور سے فیملی کے ساتھ آرہے تھے۔ ان کو جگہ جگہ گھنٹوں کھڑے رہنے کے عمل نے انتہائی اکتا دیا تھا۔ وہ کالاش جائے بغیر واپس لوٹنے کی خواہش کر رہے تھے۔ لیکن ان کو واپس موڑنے کیلئے جگہ نہیں مل رہی تھی۔ یہ حالت زیادہ تر سیاحوں کی تھی۔ کالاش ویلیز کی سڑکیں جہاں بہت تنگ ہیں۔ وہاں ویلیز روڈ کو این ایچ اے کی تحویل میں دینے کے بعد مرمت کی جاتی ہے اور نہ روڈ قلی موجود ہیں۔ کالاش ویلی روڈ پر ایک غریب شخص اپنی طرف سے کام کرتا ہے۔ جن کی ڈرائیور برادری اور سیاح اپنی طرف سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ جو روڈ قلیز اس سڑک پر کام کرتے تھے۔ وہ ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔ جبکہ نئے قلی بھرت نہیں کئے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سڑکوں کی حالت انتہائی طور پر خراب ہو چکی ہے۔ سیاحوں کے اس رش سے مقامی لوگوں کو ایک طرف آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تو دوسری طرف مقامی ٹیکسی سیاحوں سے منہ مانگے کرایہ وصول کرتے ہیں،اور بکنگ پر گاڑیاں فراہم کرتے ہیں۔ ایک مقامی شخص نے بتایا۔ کہ اس کو ایمر جنسی میں ٹیکسی گاڑی کی ضرورت پڑی۔ تو جاننے والے ڈرائیور نے پہلے تو روڈ پر گاڑیوں کے رش کا بہانا بنایا۔ اور بعد آزان دس ہزار روپے کرایہ طلب کیا۔ جبکہ عام حالات میں وہ اس کے دو ہزار طلب کرتے ہیں۔ خراب راستوں کی وجہ سے مقامی لوگوں اور سیاحوں کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت اس بارے میں بالکل لا علم ہے۔ حکومت سیاحتی ترقی کی بات تو کرتی ہے۔ لیکن یہ فی الحال زبانی دعووں تک محدود ہے۔ گو کہ اس سے بھی سیاحت کی بہتری میں مدد ملی ہے۔ لیکن جب تک کالا ش ویلیز روڈ تعمیر نہیں کئے جاتے۔ تب تک سیاحتی ترقی دیوانے کا خواب ہی قرار دیا جائے گا۔ ایون وملحقہ وادیوں کے لوگ گذشتہ ساڑھیتین سالوں سے یہ انتظار کر رہے ہیں۔ کہ کالاش وادی سے تعلق رکھنے والا معاون خصو صی وزیر اعلی خیبر پختونخوا وزیر زادہ جو اس روڈ کی تعمیر کے حوالے سے مسلسل جدوجہد کر رہاہے۔ کی محنت کب رنگ لائے گا۔ جب کہ وادیوں کے لوگ سفری مشکلات سے تنگ آچکے ہیں۔ عوامی حلقوں نے کہا۔کہ سڑک کی تعمیر میں مسلسل تا خیر اب عوام کیلئے وبال جان بن چکی ہے۔خصوصا ایون چتر پل تا صحن کا ائریا آمدورفت کیلئے مشکل ترین مقام بن گیا ہے۔ اس لئے اپنی مشکلات حکومت تک پہنچانے کیلئے ایک عظیم الشان احتجاجی جلسہ ایون میں منعقد کیا جائے گا۔ جس میں روڈ کی تعمیر کیسلسلے میں حکومت پر دباو ڈالا جائے گا۔