داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔ڈاک خا نہ سلا مت رہے
وطن عزیز کے شہری حلقوں سے لیکر دور دراز دیہات اور پہا ڑی علا قوں تک ہر جگہ پا کستان پوسٹ کا لیٹر بکس مو جو دہے یہ لیٹر بکس حکومت کی مو جو د گی اور عوام کے ساتھ حکمرا نوں کے رابطے کا ثبوت ہے 1950ء کے عشرے میں تیسری جماعت کی کتاب میں ڈاکیے کا سبق ہوتا تھا خا کی وردی میں چر می تھیلا ہاتھ میں لئیے پوسٹ مین کی تصویر ہو تی تھی سبق یوں شروع ہوتا تھا ”خا کی وردی والا ڈاک لیکے آیا ہے اس کا نا م ڈاکیہ ہے“ جدید دور میں ای میل، فیکس، فون، کورئیر اور دیگر ذرائع ابلا غ میسر ہونے کے باوجود پا کستا ن پوسٹ کی اہمیت کم نہیں ہوئی تا ہم ڈاک خا نے کا حجم سکڑ کر بہت چھوٹا ہو گیا ہے حکمرانوں کی عدم تو جہ کے سبب ڈاک خا نے کا عملہ بہت محدود ہو گیا ہے حا لا نکہ ڈاک کی تقسیم، پوسٹل لائف انشورنس، پوسٹل سیونگ بینک، منی آرڈر، منی گرام سروس وغیرہ کے شعبوں میں ڈاک خا نے کا کا م پہلے سے بڑھ گیا ہے پو سٹل پارسل اور رجسٹری اب بھی تیز ترین سروس ہے اور یہ سروس سستی بھی ہے پا ک فو ج کی تما م خط و کتا بت ڈاک کے ذریعے ہوتی ہے عام لو گ بھی ڈاک کو سب سے زیا دہ قابل اعتما د سمجھتے ہیں یو ٹیلیٹی بلز کے لئے بھی لو گ ڈاک خا نے سے رجو ع کر نے کو بہتر قرار دیتے ہیں اس کے باو جود ڈاک خا نے کا کام 30فیصد عملہ کے ذریعے چلا یا جا رہا ہے 70فیصد ملا زمین کی ریٹا ئر منٹ کے بعد ان کی جگہ نئے لو گ نہیں آئے پوسٹ ما سٹر کا کام ڈاکیہ، پیکر اور رنر (Runner)سے لیا جاتا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ پریس کلب کی ایک محفل میں اس پر بحث ہوئی اس کے ہر پہلو کا جا ئزہ لیا گیا حا صل کلا م یہ تھا کہ ڈاک خا نہ بھی اُن محکموں میں شامل ہے جو حکمرا نوں کے کا م نہیں آتا حکمران جدید ذرائع استعمال کر تے ہیں ڈاک خا نے میں نہ خط بھیجتے ہیں نہ پارسل، نہ رجسٹری، نہ منی گرام اور نہ ہی منی آرڈر اس وجہ سے وہ ڈاک خانے کو ضروری محکمے کا درجہ نہیں دیتے، ریڈیو پا کستان کی طرح یہ محکمہ بھی حکمرانوں کی تر جیحا ت میں آخری لکیر تک جا پہنچا ہے جس طرح سر کاری سکول اور سر کاری ہسپتال کے ساتھ حکمر ان طبقے کا واسطہ نہیں پڑتا اسی طرح ڈاک خا نے سے بھی حکمران طبقے کا کوئی سرو کار نہیں رہا اگر چہ انگریز وں کے دور کی مثال دینا اچھا نہیں لگتا وہ غلا می کا دور تھا آج ہم آزاد ہیں پھر بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انگریز وں کے دور میں وائسرائے اور گورنر سے لیکر پو لٹیکل ایجنٹ اور ڈپٹی کمشنر تک سب ڈاک کے ذریعے خط بھیجتے تھے ڈاک میں خط اور پارسل وصول کرتے تھے انہوں نے ایسٹ ہاوسوں کو بھی ڈاک بنگلہ کا نا م دیا تھا پوسٹ مین کی خا کی وردی اور پوسٹ مین کا چر می بیک حکمرا نوں کی دلچسپی کا مظہر تھا قیام پا کستان کے بعد بھی پوسٹل سروس کو بھی فارن سروس اور پا کستان ایڈ منسٹریٹیو سروس کی طرح اہم خد مات میں شمار کر کے مقا بلے کے امتحا ن میں شا مل کیا گیا، سی ایس پی افسروں کو پوسٹل سروس میں ڈویژنل سپر نٹنڈنٹ لگا یا جا تا تھا جو تر قی کر کے پوسٹ ما سٹر جنرل تک آگے جا تے تھے ڈاک خا نوں کو جنرل پوسٹ آفس سے لیکر برانچ پوسٹ آفس اور سب برانچ تک پورا عملہ دیا جاتا تھا ان کو پوری مرا عات دی جا تی تھیں پوسٹ آفس کی عما رت نما یاں مقام پر بنا ئی جاتی تھی اور خوب صورت عمارت ہوتی تھی کیونکہ یہ حکمر انوں کی ضرورت تھی اب ڈاک خا نہ صرف عوام کی ضرورت ہے اور عوام کی خد مت کے لئے پوسٹ ما سٹر رکھنا، ڈاک خا نے کی عما رت کو سنوار نا، اس کو بہترین گاڑی دینا اور جدید ترین سہو لیات فراہم کرنا حکمر انوں کی تر جیحات میں شا مل نہیں گذشتہ ڈھا ئی سا لوں میں وزیر اعظم عمران خا ن اور وزیر موا صلا ت مراد سعید کی خصوصی تو جہ سے پارسل اورخطوط کی تر سیل کے نظام میں نما یاں بہتری آئی ہے سروس میں بہتری کے باوجود یہ سستی سروس بھی ہے اور قابل اعتماد سروس بھی ہے مگرا س کا حال بہت پتلا ہے پیکر (Packer) سے پوسٹ ماسٹر کا کام لیا جاتا ہے 70فیصد آسا میاں یا خا لی ہیں یا ختم کی گئی ہیں اس طرح ڈاک خا نہ سکڑ تا رہا تو خد شہ ہے کہ ایک دن اپنی مو ت آپ مر جا ئے گا ہم دعا کر تے ہیں کہ ڈاک خا نہ سلا مت رہے اور پا کستان پوسٹ کا پر چم بلند رہے۔