دادبیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔نو حہ غم ہی سہی
آزاد جمو کشمیر کے انتخا بات ہو نے والے ہیں اس کے بعد ملک میں بلدیا تی انتخا بات کا اعلا ن ہوا چا ہتا ہے انتخا بات چا ہے بلدیا تی ہوں، عام انتخا بات ہو یا ضمنی انتخا بات ہوں ان میں خو شی کا کوئی لمحہ نہیں آتا ایک دوسرے کے جا نی دشمنوں کو میدان میں اتار کر طبل جنگ بجا یا جاتا ہے گا لم گلوچ کا بازار گرم کیا جا تا ہے مر زا غا لب نے غزل کے ایک شعر میں ہمارے گھر کی رونق کا نقشہ پیش کیا ہے ؎
اک ہنگا مے پہ مو قوف ہے گھر کی رونق
نو حہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی
یہ وطن عزیز کی سیا ست کا منظر نا مہ ہے پو لیٹکل سائنس کی آن لائن کلا س میں طا لب علم نے پرو فیسر سے سوال کیا کہ ہمارے ہاں سیا ست کو ذاتی دشمنی اور شخصیات کے شدید ٹکراؤ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ پرو فیسر نے کسی تا مل کے بغیر جواب دیا سیا ست حقیقت میں نظریات پر استوار ہوتی ہے بر طا نیہ کی کنزر ویٹیو پارٹی، بھارت کی بی جے پی اور امریکہ کی ری پبلکن پارٹی قدامت پرست جما عتیں ہیں ان کے مقا بلے میں لیبر پارٹی، ڈیمو کریٹک پارٹی اور کا نگریس سب نظر یاتی جما عتیں ہیں اس لئے وہاں نظریات پر بات ہو تی ہے منشور کے حوالے سے گفتگو ہو تی ہے پارٹی کے پر وگرام کو مو ضوع بحث بنا یا جا تا ہے اس میں شخصیات کا ذکر بہت کم آتا ہے ان کے مقا بلے میں وطن عزیز پا کستا ن کی سیا ست میں نظر یات کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے پارٹی منشور اور پرو گرام بھی زیر بحث نہیں آتا اس بنا ء پر دونوں طرف سے شخصیات پر گفتگو ہوتی ہے شخصیات کو نشا نہ بنا یا جاتا ہے شخصیات کی بحث ذا تی دشمنی کو جنم دیتی ہے جو وقت گذر نے کے ساتھ جا نی دشمنی میں بدل جا تی ہے اس لئے انتخا بات میں جا نی دشمن آمنے سامنے نظر آتے ہیں گذشتہ سال گلگت بلتستان کے انتخا بات اس بنیاد پر منعقد ہوئے گالم گلوچ کا تبا دلہ ہوا اور مزید دشمنیوں کو جنم دے کر انتخا بات پا ئیہ تکمیل کو پہنچ گئے ضمنی انتخا بات میں بھی ذاتی دشمنی کا رنگ غا لب نظر آیا دوسیا ستدانوں کے درمیاں مقا بلہ ہو تو سپورٹس مین سپرٹ کے تحت ہار جیت کو تسلیم کیا جاتا ہے ذاتی دشمنی میں ہار جیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا آنے والے انتخا بات چا ہے آزاد جمو کشمیر کے ہوں یا بلدیا تی اداروں کے ہوں، دونوں پر خد شات اور شبہا ت کے گہرے سایے منڈ لا ئینگے انتخا بی مہم میں سیا سی گفتگو کی جگہ گا لم گلو چ ہو گی الزا مات کی بو چھا ڑ کی جا ئیگی جو ابی الزا مات سے دشمنی کی توا ضع ہو گی گویا ایک بار پھر ہم دنیا کے سامنے تما شا بن کر رہ جائینگے قانون کی آن لائن کلا س میں ایک طالب علم نے پر فیسر سے سوال کیا کہ ہمارے ملک کے سیا ست دان بالغ نظر کیو نہیں ہیں؟ ان میں وسیع القلبی کا فقدان کیوں ہے؟ عدم برداشت کا کلچر کس وجہ سے آیا ہے؟ پرو فیسر ایک سینئیر وکیل تھے انہوں نے جواب دیا کہ بالغ نظری تجربے سے آتی ہے وسیع القلبی مطا لعے سے آتی ہے قوت برداشت کا تعلق سیا سی منشور اور پروگرام سے ہے ہمارے سیا ستدانوں کا تجربہ گالم گلوچ کے بل بوتے پر استوار ہے جو گلا پھاڑ کر بولے وہ کامیاب تصور کیا جاتا ہے جس کی زبان پر گالی آئے اس کو بڑا کامیاب مقرر مانا جاتا ہے ہمارے سیا ست دانوں کے سامنے کوئی منشور اورپرو گرام نہیں ہوتا اس لئے وہ مطا لعہ نہیں کرتے اخبار میں اپنی تصویر اور مخا لف پارٹی کا بیاں دیکھتے ہیں انکو پتہ نہیں کہ قوم پرست سیا ست کس چڑیا کا نا م ہے؟ قدامت پسندی کی حدود کیا ہیں؟ تر قی پسند سیاست کے اصول و ضوابط کیا ہیں؟ ہمارے سیا ستدا نوں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ سیا ست کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا اور انتخا بات کا اعلا ن ہو تے ہی لو گوں کو مرزا غالب کا شعر یاد آتا ہے کہ اس گھر کی رونق ہنگا مے پر مو قو ف ہے اگر خوشی کے شا د یا نے نہیں بجتے اور غم کا نو حہ اس ہنگا مے کو ہوا دیتا ہے یہی پا کستا نی سیا ست کی نا کا می ہے اور اسی بنا ء پر سیا ست پر سے لو گوں کا اعتما د اٹھتا جا رہا ہے۔