دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔SOPs اور تعلیمی ادارے”
کورونانے کاروبار زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔۔پوری انسانیت متاثر ہے۔دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک اس کی زد میں ہیں۔شکر ہے ہمارے ہاں دوسرے پڑوسی ممالک کے مقابلے میں اس کی اتنی شدد نہیں۔۔لیکن اس سے بچنے کی یہ مسلمہ ثبوت حقیقت ہے کہ احتیاط کی جائے۔اس سے بچنے کے لیے قومی معیار کا ایک عمل متعارف کیا گیا ہے اس کا نام Standard Operation Processیعنی SOPرکھا گیا ہے اس عمل کے تحت آپس میں فاصلہ رکھنا، ہاتھوں کو دھونا،سینیٹایزر کا استعمال اور Face Mask کا استعمال لازمی ہے جو اتنا مشکل کام نہیں۔ یہ دفتروں میں،اداروں میں،عوامی اجتماع گاہوں میں،عبادت گاہوں میں اوربازاروں میں لازمی ہے کہ لوگ ان ہدایات پر عمل کریں۔لیکن یہ ثابت ہوا ہے کہ ان ہدایات پر عمل کرنے والے سکول اور چند دفاتر ہیں باقی کوئی بھی ان کی پرواہ نہیں کرتا۔اس لیے فوج تک بلائی گئی۔۔لیکن سکولوں میں کوئی ایسا کیس ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ بچے اور اساتذہ یا دوسرا عملہ SOPs پر عمل نہیں کرتا۔۔مگر اچھنبے کی بات ہے کہ بند بھی ان اداروں کو کیا جاتا ہے جو سو فیصد SOPs پر عمل کرتے ہیں۔ اگر احتیاط سے اس وباء سے بچا جاتا ہے تو یہ ادارے محفوظ ہیں۔بچے محفوظ ہیں۔ان کوSOPs کے تحت کھول دینا چاہیے۔یہ بچے اساتذہ کی ہدایات پر عمل کرینگے اور اس کا مثبت نتیجہ یہ ہوگا کہ گھر گھرSOPs پر عمل ہوگا۔ہمارا تعلیمی عمل تباہ ہوگیا ہے بچے آن پڑھ ہورہے ہیں یہ کورونہ سے بھی خطرناک ہے۔ملک میں اکثریت ان بچوں کی ہے جو نہ آن لائین کلاسس لے سکتے ہیں نہ ان کو ایسی کوئی سہولت میسر ہے نہ Netکی سہولت ہے ان کا زریعہ تعلیم صرف سکول تھا۔۔ملک میں کہیں بھی وباء کی شرح پانچ فیصد سے کم نہیں کبھی کم تو پھر زیادہ ہوتی ہے اس کا مطلب ہے کہ پورے ملک کے تعلیمی ادارے بند رہیں گے اسی طرح دوسرا سال بھی ضائع جائے گا۔حکومت کو اس مسلے پر ہنگامی بنیادوں پر سوچنا چاہیے بے شک روزانہ پانچ فیصد بچے سکول آئیں اساتذہSOPs کے تحت ان کو پڑھائیں گے ان کے دوسرے ساتھی باری باری سکول آئیں گے تو مصروف رہینگے۔۔امتحانات شیڈول کے مطابق ہوں SOPs کے تحت امتحان لینا کوئی مشکل نہیں۔امتحان نہ ہونے کی وجہ سے محنتی اور پڑھاکو بچے ذہنی مریض بن چکے ہیں۔اس لیے اس پر ہنگامی بنیادوں پر سوچا جائے۔اساتذہ اور والدین کی دردمندانہ اپیل ہے کہ کم از کم ان علاقوں میں جہان کورونا کی شدت تشویشناک حد تک نہیں سکول کھولے جائیں۔۔ان شا اللہ اللہ ہماری مدد کرے گا۔زندہ قومیں ہر مشکل کے سامنے ڈٹ جاتی ہیں ان پر آزمایش آتی ہے اس آزمایش کا مقابلہ کرنا اور مسلسل جد و جہد کرنا اس کو زندہ رکھتی ہے۔ہمارے سامنے چائنا کی مثال ہے انھوں نے ذمہ داری کا ثبوت دے کر کورونا کو شکست دی۔وہ جہد مسلسل پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم انحصار کرنے والے ایک ویکسین نہ بنا سکے۔۔اب عطیوں پر گزارہ کرتے ہیں خواہ جو کچھ بھی ہو قوم کو آن پڑھ ہونے سے بچائیں ہمارے ہاں برائے نام ہی سہی جو تعلیم ہے ایسا نہ ہو کہ اس سے بھی محروم ہو جائیں۔۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔