مکتوبِ چترال۔۔۔بشیر حسین آزاد۔۔۔تماشہ گاہ میں تماشا
مانہ کہ کارونا نے واقعی دنیا کو جھکڑ لیا ہے۔دنیا کے کئی ممالک تباہی کے دہانے پر ہیں۔معیشت تباہ ہوچکی ہے۔کئی ممالک میں لاک ڈاون کی صورت حال ہے مگر ان کے ہاں عوام باشعور ہیں اور سرکار کو ان کی فکر ہے ہمارے ملک میں بھی یہی صورت حال ہے حکومت کے اقدامات احسن ہیں اس لیے ہم کورونا کا بہت مقابلہ کر رہے ہیں لیکن اس صورت حال میں حکومت عوام کو پابندیوں کے علاوہ ریلیف کیا دے رہی ہے؟ یہ سوالیہ نشان ہے۔غریب مزدور دیہاڑی دار چھاپڑی فروش معمولی نوکر چھوٹے اور کرایے کے دکاندار چوکیدار وغیرہ ایسا طبقہ ہے جو زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے اس طبقے کی حکومت کیا مدد کر رہی ہے؟ سوال یہ ہے سرکار کا کردار کیا ہے؟۔فلاحی ریاست کی تعریف کیا ہے؟۔موجودہ حالات میں متوسط اور غریب طبقہ پس رہا ہے۔ادھر لاک ڈاون ہے پابندیاں ہیں مگر دوسری طرف سرکار کی رٹ میں یہی طبقہ آرہا ہے بازار میں جو دوکانیں بند کی جاتی ہیں وہ ان غریبوں اورمتواسط طقے کی ہیں۔عید کے موقع پر بچارے معمولی دوکاندار جوتے کپڑے وغیرہ سامان فروخت کرنے کے لئے لاتے ہیں یہ طبقہ سارا سال دوکان کا کرایہ اس لیے ادا کرتے رہتے ہیں کہ عیدوں کا سیزن آئے گا تو مال بھیج کر سارے سال کا کرایہ ادا کریں گے بچارے مزدور بازار میں ریڑھا لگاتے ہیں کہ جرابیں،بنیان،مہندی وغیرہ بھیج کر اپنے بچوں کو عید کی خوشیاں دینگے۔لیکن افسوس اس لاک ڈاون کا طریقہ ہی عجیب ہے،سبزی کے دکان،بیکری اورجنرل سٹور جو سارا سال کھلے رہتے ہیں وہ آزاد ہیں لیکن کپڑوں کی دکانیں بند ہیں جوتوں کی دکانوں پر تالا ہے، ان بے بس دکانداروں کے مال دکانوں میں بند پڑے ہیں۔ ہیر ڈریسر اور ٹیلرماسٹروں کی دکانیں بند ہیں،سرکار کی یہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اِدھر تجار یونین کا نام نہاد صدر سرکار کا چیلا ہے سرکار کے ساتھ مل کر دکانیں بند کراتا ہے۔اُدھر پشاور میں تجار یونین کے صدور سرکار سے غریب دکانداروں کو مراعات دلاتے ہیں ٹیکسوں میں 50فیصد چھوٹ دلواتے ہیں، چھوٹے دکانداروں کے لئے آسان اقساط پر قرضے دلانے کی کوشش کرتے ہیں،ملاکنڈ بٹ خیلہ میں تجار یونین انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ کر تجار برادری کے لئے لاک ڈاون میں نرمی کرکے دن میں چند گھنٹوں کے لئے مارکیٹ کھولنے کی اجازت دیتی ہے۔ اِدھر زائد المعیاد صدر صاحب سرکار کی مخبری کرتا ہے۔سرکار کے ساتھ بازاروں میں گشت لگاکر مخالفین اور بچارے دکانداروں پر بھاری جرمانے لگانے میں مصروف ہیں،یہ غریب دکاندار بے بس ہو گئے ہیں غریب دکانداروں کا چولہا بند ہوگیا ہے،نیچے سے قرض پرسامان لایاجاتا ہے تا کہ مال فروخت کرکے قرضہ ادا کریگا مال نہ بکنے کی وجہ قرضوں کے بوجھ کے تلے مزید دب جاتا ہے۔ ذہنی بیمار بن گیا ہے۔چترال بازار میں جو ظلم ان مظلوموں پہ ہورہا ہے تاریخ میں کہیں ایسا نہیں ہوا۔ یہ اپنی فریاد لے کے کہاں جائیں۔ کیا کورونا سے بچاؤ کے لیے اسی طبقے کو بند کرنے سے سب کچھ ممکن ہے۔کیا یہی طبقہ کارونا کی وجہ ہے۔کیا سیاسی جلسے کرنے والوں،ایس او پیز کی خلاف ورزی کرکے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرنے والے،سرکاری گاڑیوں میں پھرنے والے اور نماز جنازوں میں ہزاروں تعداد میں شرکت کرنے والوں کی طرف سے کارونا نہیں پھیلتی؟۔انتظامیہ کی طرف سے دوغلی پالیسی قابل افسوس ہے۔ہم انتظامیہ اور سرکار سے فوراً توجہ کی اپیل کرتے ہیں۔ غریب طبقے کی دعائیں لیں نہ کہ بددعا۔ابھی بھی وقت ہے کہ غریب کے حال پر رحم کیا جائے اور ناجائز جرمانوں سے ان کو بچایا جائے۔اگر جرمانہ ہی کرنا ہے تو قصائی کو کریں جو کہ سرکاری نرخ نامے پر کبھی بھی عمل درآمد نہیں کرتے،دونمبری کرنے والوں کو پکڑ کر بھاری جرمانہ کرکے جیل میں ڈال دیں ہم کچھ نہیں کہیں گے۔مگر جائز کاروبارکرنے والوں کو بے جا تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ورنہ یہ طبقہ میدان میں آجائے گا کیونکہ یہ ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ان کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے ان کی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں۔ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو مظلوم کی آہ اور بددعاسے بچائیں۔امین