داد بیداد ،،،،ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی،،،،،،،لا ک ڈاون کی ضرورت
نیشنل کما نڈ اینڈ کورونا اپریشن سنٹر کے جا ری کر دہ اعداد شمار کے مطا بق ملک میں کورونا مر ض روز بروز بڑ ھ رہا ہے پشاور میں کورونا کے مثبت کیسوں کی شرح 20فیصد ہو گئی لا ہور میں 22فیصد کو رونا مثبت کیسز آگئے دیگر شہروں میں یہ شرح 12فیصد سے 18فیصد تک ہے ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ کورونا کی مو جو دہ لہر پہلے کے مقا بلے میں زیا دہ خطر نا ک ہے اس لہر میں بڑے شہروں کے ہسپتا لوں میں مریضوں کو رکھنے کی گنجا ئش ختم ہو گئی ہے ملک کے کسی بھی صو بے کے کسی بھی ضلع میں کوئی قرنطینہ مر کز نہیں بنا یا گیا مرض کا حملہ جتنا شدید ہے حکومت اور عوام کا رویہ اس سے بڑھ کر بے احتیا طی کی طرف ما ئل ہے ہفتہ اور اتوار کے دو دنوں کا محدود لا ک ڈاون نا کا م ہوا ہے اس ادھورے لا ک ڈاون کا خا طر خواہ نتیجہ بر آمد نہیں ہو رہا ہے اس لئے این سی او سی کی سفا رشات کی رو شنی میں حکومت کو جلد یا بدیر مکمل لا ک ڈاون کی طرف جا نا پڑ ے گا مر ض پر قا بو پا نے کا یہ واحد راستہ اور ذریعہ ہے دوسرا کوئی راستہ یا ذریعہ نہیں نومبر 2019میں چین کے شہر ووہان سے نکلنے والے مر ض کا علا ج بھی چینی قیا دت کے اختیار کئے طریقے پر ہو گا اپریل 2021کے بقیہ دو ہفتوں کے لئے ہمارے سامنے دو مسائل ہیں پہلا مسئلہ ویکسین کا ہے ویکسین لگا نے کی رفتار بہت سست ہے اسی رفتار سے یہ عمل جاری رہا ہے تو اس میں چار سال لگ سکتے ہیں دوسرا مسئلہ فوری طور پر رمضا ن المبا رک کی آمد اور اس مبارک مہینے میں عوام کا بازاروں میں غیر ضروری رش لگا نا ہے چین کی حکومت نے کورونا وائر س کو مکمل لا ک ڈاون کے ذریعے ملک کے دوسرے حصو ں میں پھیلنے سے روک دیا البتہ چین سے با ہر جا نے والوں نے وائرس دوسرے ملکوں میں پہنچا دیا سب سے پہلے ایران میں یہ مرض پھیلا اس کے بعد عرب مما لک میں وائرس نمو دار ہوا پھر یو رپ اور امریکہ تک پوری دنیا میں پھیل گیا امریکہ اور برازیل میں سب سے زیا دہ نقصان ہوا پا کستان میں حکومت نے مارچ 2020ء میں لاک ڈاون کیا، بین الاقوامی پرواز وں پر پا بندی لگا ئی، بین الصو بائی ٹرانسپورٹ کو بند کر دیا بازاروں کو بند کردیا اور مسا جد کے لئے ممکنہ عملی تدا بیر کا نفاذ کیا اس طرح کورونا وائرس پر قابو پا لیا گیا اضلا ع کی سطح پر سکو لوں اور کا لجوں میں قرنطینہ مراکز قائم کئے گئے بڑے شہروں سے دیہات کا سفر کرنے والوں کے لئے 14دنوں کا قرنطینہ لا زمی قرار دیا گیا یہ کم از کم معیا ر کے احتیا طی اقدامات تھے جنوری 2021ء میں کورونا کی تیسری لہر آنے کے بعد ان جیسے سخت اقدامات کی ضرورت تھی کا ونسل آف کا من انٹر سٹ (سی سی آئی) کی میٹنگ میں دو صو بوں نے لا ک ڈاون کا مشورہ دیا وفاق اور دو صو بے اس خیال سے متفق نہیں تھے مسئلہ یہ ہے کہ لا ک ڈاون میں جتنی دیر ہو گی ملک اور قوم کا اتنا ہی نقصان ہو گا احتیاط کا تقا ضا یہ نہیں کہ عوام احتیا ط کریں احتیاط کا تقا ضا یہ ہے کہ حکومت لا ک ڈاون کر ے اور عوام حکومت کے ساتھ تعاون کریں ایک طبقہ کہتا ہے کہ لاک ڈاون سے ہماری معیشت کو نقصان ہو گا دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ ہماری کوئی معیشت نہیں روز مر ہ دیہا ڑی پر گزارہ ہے لا ک ڈاون ہوا تو ہم بھوک سے مر جائینگے حکومت کا یہ کا م ہے کہ دو نوں طبقوں کے تحفظا ت کو مد نظر رکھتے ہوئے لا ک ڈاون کرے اس لا ک ڈاون کا ما ڈل چین سے مل سکتا ہے ایران سے بھی مل سکتا ہے عرب مما لک سے بھی مل سکتا ہے سعودی عرب میں مکمل لا ک ڈاون مشکل فیصلہ تھا اس کے نتیجے میں حر مین شریفین کو بند کر دیا گیا ما ضی میں ایسے لا ک ڈاون کی مثا ل کبھی دیکھنے میں نہیں آئی یہ غیر معمو لی حا لا ت میں غیر معمو لی اقدام کی مثا ل ہے پا کستان کو بھی اس وقت عالمی مر ض پر قا بو پا نے کے لئے غیر معمو لی حا لا ت کا سامنا ہے ان حا لا ت میں حکومت کو غیر معمو لی اقدامات پر غور کر نے کی ضرورت ہے بلکہ شدید ضرورت ہے مکمل لا ک ڈاون کے بغیر سٹینڈر اوپر ٹینگ پر و سیجر ز(SOPs) کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اگر عوام بھاری تعداد میں بازاروں میں خریداری کے لئے نکل جا ئیں بازار وں میں خریداروں کا جمگھٹا لگا رہے تو کو رونا پھیلتا رہے گا ہا تھوں کی دھلا ئی اور ما سکوں کے استعما ل سے فر ق نہیں پڑے گا کیونکہ حکومت کی طرف سے غیر سنجیدہ رویے کو دیکھ کر عوام بھی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر تے ہیں یہ نفسیا تی اور معا شرتی اصو لو ں کا معا ملہ ہے حکومت جو قا نون لا تی ہے عوام کی طرف سے کوشش کے باو جو د اس پر سو فیصد عمل نہیں ہو تا جب حکومت قانون ہی نہ بنا ئے لا ک ڈاون نہ کرے تو عوام سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے؟ قابل عمل کا م یہ ہے کہ دو دنوں کی جگہ ہفتے کے سات دنوں کا لا ک ڈاون لگا کر غریبوں اور مز دوروں کو ان کے گھر وں پر راشن پہنچا یا جا ئے متمول طبقے کے لئے سودا سلف گھر و ں پر پہنچا نے کا بند و بست کیا جا ئے اس طرح کا روبار متا ثر نہیں ہو گا، غریب بھی بھوک سے نہیں مرے گا نیز تما م اضلا ع میں قرنطینہ کے مرا کز قائم کئے جا ئیں اس طرح وائرس کے پھیلنے کا چا نس نہیں رہے گا۔