داد بیداد ،،،،،،،،ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی،،،،،،اتحا دسے پہلے
اخبارات میں پا کستان ڈیمو کریٹک مو منٹ (PDM)کا مستقبل زیر بحث ہے سو شل میڈیا والوں نے اس اتحا د کے لئے ما ضی کا صیغہ استعمال کرنا شروع کیا ہے تھا، تھے اور تھی کہہ دیتے ہیں لیکن معا ملہ اتنا بھی ابتر نہیں کہ اسے ما ضی میں دھکیل دیا جا ئے دراصل اتحا د کے بعد سو چنے سے کچھ ہا تھ نہیں آئے گا اتحا د سے پہلے سو چنا چاہئیے اتحا د میں دو مسا ئل ہوتے ہیں ایک مسئلہ شنا خت کا ہو تا ہے، دوسرا مسئلہ مفاد کا ہوتا ہے جہاں بہت سے گروہ ملکر اتحا د بنا نے کی بات کر تے ہیں وہاں یہ دیکھنا بڑا ضروری ہے کہ اتحا د کے بعد ہر گروہ اپنی شنا خت کس طرح بر قرار رکھے گا اور رکھنے کی اجا زت بھی ہو گی یا نہیں؟ دوسرا مسئلہ مفاد کا بھی اس طرح ہے اتحا د سے پہلے ہر گروہ کو دیکھنا چاہئیے کہ ہمارا مفاد کیا ہے؟ اتحا د کی صورت میں اس مفاد کی کیا ضما نت ہو گی؟ اگر تاریخ پر سر سری نظر دوڑ ائی جا ئے تو پا کستان میں سیا سی جما عتوں کے 13بڑے اتحاد بنے مگر ان میں سے ایک بھی کا میاب نہیں ہوا بعض لو گ 1977ء میں بھٹو کے خلا ف بننے والے اتحا د پا کستان نیشنل الا ئنس (PNA) کو کا میاب قرار دیتے ہیں اس کے نتیجے میں مار شل لا ء آیا اور بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا لیکن یہ کوئی کا میا بی نہیں مار شل لا ء لگنے کے بعد اتحا د ٹوٹ گیا اور اتحا دی تتر بتر ہو گئے اس طرح کا طا قتور اتحا د 1990ء میں بنا تھا اس کا نام اسلا می جمہوری اتحا د (IJI) تھا لیکن انتخا بات کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی تو اتحا د کا شیرازہ بکھر گیا کوئی مقصد حا صل نہیں ہوا بعض لو گ کہتے ہیں کہ اس کا مقصد محترمہ بے نظیر بھٹو کی کا میا بی کا راستہ روکنا تھا اس میں یہ اتحا د کا میاب ہوا سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا جو فیصلہ دیا اس میں مذکورہ اتحا د کی پوری تفصیل مو جو د ہے مو جو دہ حا لا ت میں جس اتحا د کا ذکر باربار آرہا ہے اس اتحا د کو بھی شنا خت اور مفاد کے دو گھمیر مسا ئل در پیش ہیں کوئی بھی سیا سی جما عت اپنے نا م، اپنے جھنڈے اور اپنے نعرے سے دست بردار ہو نے کو تیا ر نہیں اپنی شنا خت کی قر بانی دینے کو تیار نہیں سید شمس النظر فاطمی کہتے ہیں کہ اپنی شنا خت سے چمٹنے کا مسئلہ ہمارا دیرینہ مسئلہ ہے پا کستانی قومیت اسی وجہ سے پروان نہ چڑھ سکی، پا کستان کی کوئی قومیت، اس ملک کا کوئی قبیلہ اس قوم کا کوئی خا ندان اپنے آپ کو پا کستانی کہلوا نا نہیں چاہتا اس لئے بھا نت بھا نت کی بو لیاں بولی جا رہی ہیں امت مسلمہ کا یہی حا ل ہے مسلمان ایک امت اور ملت اس لئے نہیں بن سکے کہ ہر مسلک کے لو گ اپنی الگ شنا خت کو اسلا م میں ضم کرنا چاہتے 73فر قوں کے لو گ الگ الگ اپنی شنا خت بر قرار رکھنا چا ہتے ہیں عرب اور عجم کے 73فر قے جب تک اپنی الگ شنا خت کو اسلا م کے دائمی پیغام پر قر بان نہیں کر ینگے تب تک ملّت اسلا میہ اور امت مسلمہ کا خواب شر مندہ تعبیر نہیں ہو گا یہی حا ل مفاد کا ہے اتحا د کے لئے مفا دکا مشتر ک ہو نا لا زمی شرط ہے اور اتحا د سے پہلے اس شرط پر غور ہو نا چا ہئیے گیا رہ جما عتوں کے اتحا د میں 5جما عتیں ایسی ہیں جن کے پا س اسمبلی کی کوئی سیٹ نہیں یہ پا نچ جما عتیں ہا تھ اٹھا کر اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے لئے ووٹ دیتی ہیں جن جما عتوں کے پا س اسمبلی کی قابل ذکر سیٹیں ہیں کسی صو بے میں حکومت ہے یا کسی صوبے میں وہ قائد حزب اختلا ف کا عہدہ رکھتی ہیں قو می اسمبلی اور سینٹ میں قائد حزب اختلا ف کی کر سی پر نظر جما ئے بیٹھی ہیں وہ کیو ں کر اسمبلیوں سے استعفیٰ دینگی؟ چار جما عتیں ایسی ہیں جو آنے والی اسمبلی میں چند نشستیں لینا چاہتی ہیں اور اس مقصد کے لئے طا قتور حلقوں کی اشیر باد حا صل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں اتحا د میں مفا دات کا یہ ٹکراؤ ہمیشہ سامنے آتا رہا ہے اب بھی مفادات کا ٹکراؤ اپنا جلوہ دکھا رہا ہے اس لئے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ حکومت کو حزب اختلا ف کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں وزیر اعظم نے حکومت کے تر جما نوں سے کہا ہے کہ وہ حزب اختلا ف کو جواب دینے کے بجا ئے حکومت کی کار کر دگی پر اظہار خیال کریں حکومت کے تر قیا تی اور فلا حی پرو گرا موں سے عوام کو آگا ہ کریں قوم کے سامنے حکومت کا مثبت امیج اجا گر کریں گو یا اتحا د سے پہلے شنا خت اور مفاد کے مسا ئل پر غور نہ کر نے کا نتیجہ اتحاد کو لے ڈو بے گا اگر تاریخ سے سبق لیکر آگے بڑھنے پر تو جہ دی جا ئے تو آنے والے سا لوں میں وطن عزیز کے اندر اتحا دوں کی سیا ست کا خا تمہ ہو گا جن سیا سی جما عتوں کے پا س پا رلیمنٹ کی کوئی نشست نہیں ہے ان کو اپنی سیا سی جدو جہد کا از سر نو جا ئزہ لینا ہو گا جن سیا سی جما عتوں کا منشور اسلا می نظام کا قیا م ہے ان کو اپنے جھنڈے الما ریوں میں رکھ کر ایک جما عت کے اندر ضم ہونا پڑے گا جن جما عتوں کو قوم پرستی اور تر قی پسندی کا دعویٰ ہے ان کو اپنے جھنڈے چھپا کر ایک پر چم کے نیچے آنا پڑے گا اور جن اور جن جما عتوں کو دائیں بازو کی اعتدال پسند پارٹی ہونے کا زعم ہے انہیں ایک پلیٹ فارم پر آنا ہو گا تین پا رٹیاں ہونگی تین جھنڈے ہونگے تو ہمارا سیا سی نظام مستحکم ہو گا غیر متوازن اتحا دوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔