پاکستان پیپلز پارٹی چترال لویر نے لینڈ سٹلمنٹ کے حوالے سے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں اٹھنے والے تنازعات اور عوامی تحفظات دور کئے جائیں بصورت دیگر اس متنازعہ سٹلمنٹ ریکارڈ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔سلیم خان صدر پی پی پی چترال لویر

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نما یندہ چترال میل) پاکستان پیپلز پارٹی چترال لویر نے لینڈ سٹلمنٹ کے حوالے سے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں اٹھنے والے تنازعات اور عوامی تحفظات دور کئے جائیں بصورت دیگر اس متنازعہ سٹلمنٹ ریکارڈ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ چترال پریس کلب میں پارٹی کے صدر و سابق صوبائی وزیر سلیم خان نے کابینہ کے عہدہ داروں اور کارکنان کی معیت میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ کہ ہم نے چترال میں ہونے والے لینڈ سٹلمنٹ کا مکمل جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس میں بے پناہ غلطیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے کئی نئے تنازعات جنم لے چکے ہیں۔ لہذا ان تنازعات کے خاتمے اور غلطیوں کی درستگی کے بغیر ریکارڈ کو مکمل قرار دینا کسی بھی صورت درست نہیں اس لئے ریکارڈ کو شفاف بنانے کیلئے اسے موخر کیا جائے اور سٹلمنٹ کے ملازمین کو بھی مستقل کیا جائے۔ جو کہ فی الحال ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ سلیم خان نے چترال کے چراگاہوں اور شاملات کو بھی سٹیٹ پراپرٹی قرار دینے کی شدید مخالفت کی اور کہاکہ یہ لوگوں کو چراگاہوں سے محروم کرنے اور انہیں بے گھر کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کاغلشٹ، کھوتان لشٹ اور چیوڈوک کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقے لوگوں کے شاملات اور چراگاہیں ہیں جنہیں یہاں کے باشندے ہر قسم استعمال کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اسلام آباد کے بنی گالہ میں ایک شخص اگر محل بنا سکتا ہے۔ تو چیوڈوک، کھوتان لشٹ اور کاغلشٹ میں مکان کیون نہیں بنا سکتا۔ حکومت کا یہ دوہرا معیار کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ سلیم خان نے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے موجودہ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا تین سال ہونے کو ہے چترال میں ایک پراجیکٹ بھی تعمیرنہیں کر سکے۔ سابق حکومت کے منظور کردہ چترال شندور روڈ، چترال گرم چشمہ روڈ، چترال ایون بمبوریت روڈ کی تعمیر کو کھٹائی میں ڈال دیاگیا فنڈ نہیں دی گئی اسی طرح سی پیک روٹ کو سوات منتقل کرنے پر کام کیا جارہا ہے۔ جبکہ گیس پلانٹ جس کیلئے تین مقامات پر زمین بھی خریدی گئی تھی اب گلگت منتقل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف حکومت ماحول بہتر کرنے کیلئے شجر کاری کرنے اور جنگلات لگانے پر زور دے رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف گیس پلانٹ جو کہ متبادل ایندھن کے طور پرچترال کے جنگلات کو بچانے کا منصوبہ ہے، کو ختم کیا جارہا ہے۔ جو کہ اس حکومت کی نااہلی کی واضح مثال ہے۔ انہوں نے فوری طور پر چترال کے تین اہم روڈز اور گیس پلانٹ منصوبے کو دوبارہ تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا۔ سلیم خان نے یونیورسٹی آف چترال کیلئے فنڈ کی عدم فراہمی پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اور کہا کہ تین سالوں کے دوران یونیورسٹی کیلئے کوئی فنڈ نہیں دیا گیا اس موقع پر جنرل سیکرٹری محمد حکیم خان ایڈوکیٹ نے 1975 کے نوٹفیکیشن کے حوالے سے کہا کہ اس کی غلط تعریف کی جارہی ہے جس کی وجہ سے چترال میں نئے تنازعات پیدا ہو گئے ہیں۔ چترال میں ہر گاوں کے ساتھ شاملات اور پہاڑوں پر چراگاہیں ہیں اس لئے ان کو سٹیٹ پراپرٹی قرار دینا کسی طور درست نہیں۔ پریس کانفرنس کے موقع پر قاضی فیصل، عالم زیب ایڈوکیٹ، بشیر احمد، میر دولہ جان ایڈوکیٹ، نظار ولی شاہ کے علاوہ بڑی تعداد جیالے موجود تھے۔