محمد جاوید حیات۔۔دھڑکنوں کی زبان۔۔”تعلیمی کارکردگی کے لحاظ سے ضلع لویر چترال کا پورے صوبے میں دوسرا نمبر”
محکمہ تعلیم سرکاری تعلیمی اداروں میں کارکردگی کی بنیاد پر سالانہ اور ماہانہ رینکینگ کراتا ہے۔صوبے میں ماہانہ کی بنیاد پر Dcms یعنی مانیٹرنگ ٹیم سکولوں میں جاتی ہے اور ادارے کی کارکردگی کی رپورٹ دیتی ہے۔۔۔اس میں اساتذہ کی حاضری،بچوں کی حاضری،پی ٹی سی کونسل کے ساتھ ادارے کے روابط، بچوں کی شرح داخلہ،تعمیراتی کام،اداروں میں سرکاری فنڈ کا استعمال وغیرہ امور کو چیک کرکے آن لائن رپورٹ دیتی ہے اور ان رپورٹوں کی بنیاد پر صوبائی ڈایریکٹریٹ میں Deos کی میٹنگ میں ہر ضلعے کی کارکردگی رپورٹ ڈیش بورڈ پر آتی ہے اور پورا صوبہ دیکھتا ہے۔پچھلے سال ضلع اپر چترال کارکردگی کی بنیاد پر صوبے میں پہلے ممبرپر آیا تھا۔اس دفعہ ضلع لویر چترال پورے صوبے میں دوسرے نمبر پر آیا ہے۔ماہ فروری میں سکول کھلے۔۔اس موسم میں ضلع لویر چترال کے اکثر علاقوں میں موسم نہایت خراب ہوتا ہے۔تحصیل لوٹکوہ،مدکلشٹ، بمبوریت،اورسون، عشریت وغیرہ علاقوں میں فٹوں برف ہوتی ہے سردی ناقابل برداشت ہوتی ہے لوگ گھروں میں بند رہتے ہیں۔۔لیکن سلام ہو ان بچوں اور ان کے اساتذہ پر کہ ایسے سخت موسم میں اپنی ڈیوٹی اور پڑھائی کے لیے اپنے سکولوں میں حاضر رہے اور ایسی کار کردگی دکھائی کہ ان کا ضلع صوبے میں دوسرے نمبر پہ رہا۔کارکردگی کی بنیاد پر جو Areas ہیں ان میں ضلعے کا سکور 90% سے اوپر رہا ہے خواہ وہ اساتذہ کی حاضری ہو بچوں کی ہو پانچویں اٹھویں جماعت کی Assessment ہو سب میں سکور 90% سے اوپر ہے۔سوال ضلعے میں موسم کی مخدوش حالات ہیں اور سوال اساتذہ کی قربانی اور فرض شناسی کا ہے۔شاید حکومت کو احساس ہو۔معاشرے میں استاد کی اس کارکردگی کو سراہا نہیں جاے گا۔کہا جاے گا کہ استاد تنخواہ لیتا ہے۔۔ کوئی افیسر اپنے دفتر میں ایک گھنٹے کے لیے آے کوئی ممبر پارلمنٹ میں بیٹھا رہے اس سے نہیں کہا جاے گا۔۔ کہ معاوضہ لیتا ہے۔۔مگر ایک استاد کے بارے ہر ایک کی زبان پر ہو گا کہ وہ تنخواہ لیتا ہے۔۔ضلع لویر چترال کے ڈی ای او مظفر علی خان صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں یہ ان کا خلوص اور انتھک محنت کا نتیجہ ہے اللہ نے ان کو سرخرو کیا۔۔ان کو اپنے اساتذہ پہ فخر ہونا چاہیے کہ انھوں نے فرض شناسی کا ثبوت دیا۔اساتذہ اس قوم کے ہراول دستے ہیں۔۔ان کی قدر ہونی چاہیے ان کی خدمات کو سراہنا چاہیے۔شاید کوئی نہ بھی مانے تب بھی یہ محسن قوم ہیں ان کی اہوں سے تعلیم و تعلم کی دنیا آباد ہے۔چترال سہولیات سے محروم ضلع ہے یہاں کے اساتذہ جان ہتھیلی پہ رکھ کے ڈیوٹی پر پہنچتے ہیں یہ شہر کے سکولوں کے اساتذہ کی طرح ڈیوٹی enjoyنہیں کر سکتے یہ مر مر کے جیتے ہیں اور نونہالان قوم کوعلم کی روشنی سے منور کرتے ہیں۔ڈی ای او مظفر علی خان کی کارکردگی اور اس کی ٹیم کی محنت اس بات کا ثبوت ہے کہ جانفشانی کی راہ میں جعرافیہ رکاوٹ نہیں بنتا ایک تعلیم یافتہ چترال کا مستقبل اس کا منتظر ہے۔ہم اس بات پہ فخر کرتے ہیں کہ ہمیں تعلیم و تعلم کا عظیم کام ملا ہے اس لیے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور عزم ہے کہ یہ کارکردگی آیندہ بھی جاری رہے گی۔۔ہمارے پاس غریب طبقے کے مجبور بچے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اگر ہم خلوص سے کام کریں تو ہم سے زیادہ خوش قسمت کوئی نہیں ہوگا اللہ توفیق اور موقع دے۔۔اس مہا کام میں والدین کا فرض بنتا ہے بچوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کریں۔ان کو سکول بھیجیں گھر میں ان کی نگرانی کریں ان سے کام کرائیں ان کی تعلیم و تربیت میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔۔