نوشتہ دیوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:پروفیسر اسرار الدین
قسط 1
اصطلا حی طور پر نو شتہ دیوار سے آ پ جو بھی مطلب سمجھیں میرا مطلب اس سے ہے ہمارے شہروں کی دیوار وں پر لکھا ئی کی جومشقیں کی جا تی ہیں۔ ان کا ذکر مطلوب ہے۔
ایک دفعہ ایک سیا ح مہمان کے ساتھ پشاور شہر کی سیر کر رہا تھا۔ جب واپس ہوئے تو اس نے پو چھا کہ آپ لو گوں نے دیواروں پر کیا لکھا ہوا ہے۔ ایک سرے سے دوسرے تک اس نے کوئی دیوار خا لی نہیں دیکھی۔ تما م دیواریں لکھا ئی سے کا لی کی گئی تھیں۔ میں نے اسکو بتا یا کہ اشتہا رات ہیں کہیں پر حکیموں کے مختلف امراض کے لئے دواؤں کے اشتہا رات ہین کہیں پر آپ کو کسی عامل کا اشتہار نظر آئے گا۔ جو بچھڑے محبوب کو واپس دلا نے کی نوید دے رہا ہو گا۔ کہیں آپ کسی حا ذق طبیب کی طرف سے بچے پید اکرنے کی گارانٹی ملیگی۔ کہیں پر تعلیمی اداروں کے اشتہار ہیں جو آپ کے بچوں کے مستقبل شاندار بنا نے کے ضا من بنے ہوئے ہیں۔ کہیں سیا سی یا مذہبی جلسے جلو سوں کے پر و گرام پر مبنی اشتہا رات ہیں تا کہ ان میں شر کت کر کے آپ دین و دنیا میں سر خرو ہو سکیں۔ علی لہذا لقیاس ہماری یہ دیواریں ہمارے فیس بک کی طرح ہیں۔ ہم ان کو دیکھ کر خو ش بھی ہو تے ہیں اور ہمارے معلو مات میں اضا فہ ہو جا تا ہے۔ اس نے کہا ”میں تو کہو ں گا کہ آپ لو گ اپنے شہروں کے دیواروں کو کا لی کر کے اپنے شہروں کے منہ پر کا لک مل رہے ہیں۔ اور اسکوبرے سے برا کر نے میں مدد دے رہے ہیں۔“ ان کی بات سن کے میں نے حیرانگی سے پو چھا کیوں! تمہا رے ملک میں میں دیواروں پر اس طرح لکھا ئی نہیں ہو تی؟
اس نے کہا، توبہ کرو ہمارے شہروں میں اگر کوئی ایسی حر کت کرے گا تو سخت جر ما نہ ہو گا۔ اور سید ھا جیل بھیجا جائے گا۔
پھر آپ اپنے اشتہا رات کا کیا کر تے ہیں؟
ان کے یا تو خا ص مقا مات ہوتے ہیں۔وہاں پر آپ کو ملیں گے۔ یا اخباروں اور دوسرے میڈیا کے ذریعے لو گوں کو آگا ہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی دیوار پر لکھے پہلے تو وہ ما لک دیوار خود اس کا بندو بست کر تے ہیں،حکومت تک تو بات بعد میں پہنچ جا تی ہیں۔
میں نے مزید حیرانی سے کہا کہ ہمارے ہاں ہر کوئی اپنا حق سمجھتا ہے کہ جہاں جو لکھے جیسا لکھے اسکی مر ضی یہاں ایک دل جلے شاعر نے جب ایک صبح اپنی دیوار پرلکھائی دیکھی تو بے ساختہ اس نے کہا ؎
یہ میرے گھر کی دیوار ہے یا حکیم صاحب کا اشتہار ہے
اس نے اسکے بعد مو ضوع بدل کے ایک اور چھپتا سوال کیا۔
آپ شہر کے بہت سی جگہوں پر میں نے دیکھا کہ کوڑا کر کٹ کے ڈھیر کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے۔ ان کو اٹھا نے کا کوئی بندو بست نہیں ہے؟ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ 9،دس سا لوں میں آپ کا تما م شہر ان ڈھیر وں کے نیچے دفن ہو جائے گا۔ پھر لو گ پشاور شہر کو ڈھونڈ تے پھر رینگے۔
ان کی اس بات سے میں پا نی پا نی ہو گیا لیکن اپنا بھر م رکھنے کے لئے میں نے ان کو بتا یا کہ نہیں ایسے کوئی خطرے کی بات نہیں۔ ہم سال میں پورا ایک ہفتہ ”ہفتہ صفائی“ منا تے ہیں اور شہر کی مکمل صفائی کرتے ہیں اس ہفتے ایک خا ص خصوصیت یہ ہے کہ ہمارے وزرا اور بڑے افسر صاحبان اور تما م علمائے کرام بذات خود اس پر و گرام میں حصہ لیتے ہیں۔
”یہ لو گ کس طرح حصہ لیتے ہیں“
وزراء اور افسر صاحبان ریڈیو ٹیلی وژن پر تقریر کرتے ہیں اور لو گوں کو سمجھاتے ہیں کہ صفائی اچھی چیز ہے وغیرہ اور علمائے کرام صفائی نصف ایمان پر مسجدوں میں وعظ کر تے ہیں“۔
”ہفتہ ختم ہو نے کے بعد کیا ہو تا ہے؟“
’’پھر دوبارہ وہی سلسلہ شروع ہو جا تا ہے اور ہم آئیندہ سال کے ہفتہ صفائی کا انتظار کر تے ہیں۔“
خوب بہت خوب کسی نے آپ کے مشہور شاعر کا ایک شعر مجھے سنا ئی تھی جو میں یا د رکھ سکا ہو ں۔ اس شاعر نے یو م اقبال کے بارے کہا تھا۔ جو مجھے کچھ یو ں یا د ہے ؎
ہم سال میں ایک دفعہ یو م اقبال مناتے ہیں باقی جو کر تے ہیں قوالی کر تے ہیں
جہاں جہاں آپ نے خو د یا د دلا یا ہفتہ صفا ئی کے دوران ہمارے شعراء حضرات شاعر ی بھی کر تے ہیں۔ اور ہمارے ادیب حضرات اخباروں میں لمبے لمبے مضا مین لکھتے ہیں۔
اسی طرح میں کوشش کرتا رہا کہ اس سیاح کے دل میں میرے شہر کے بارے میں منفی تاثر نے جگہ بنا ئی تھی وہ مٹ جائے، ایسا نہ ہو سکا اسکو اخر میں نہ با لائے حصار یا د تھا نہ پشاور عجا ئب گھر کے مشہور گندھا را ارٹ کے نمو نوں کو یا د کر ہا تھا۔ نہ خیبر کے درے جیسے تاریخی شاہرا ہ سے متاثر تھا اسکے دل کو میرے شہر کی دیوار وں پر لکھائی اور جگہ جگہ کوڑا کر کٹ کے انبار وں نے دکھ دیا تھا اور وہ ما یوس ما یوس میرے شہر سے رخصت ہورہا تھا۔ یہ ٹورسٹ لو گ ہمارے مفت کے اشتہا ر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں اپنے سیا حت کرد ہ مقا مات کے بارے بتا تے ہیں بعض ان میں سے کتا بی یا مضا مین کی صورت میں اپنے تا ثرات لکھتے رہتے ہیں جو دنیا کے مختلف مما لک میں وائرل ہو جا تے ہیں کوئی اچھی چیز ملے اسکی خو ب تعریف کرتے ہیں۔خراب چیزمشا ہدے میں آئے تو اسکوبھی خو ب اچھا لتے ہیں۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات