روح، موسیقی اور منصورشباب۔۔۔۔۔۔۔۔شمس الرحمن تاجک
موسیقی سے وابستہ لوگ میرے حساب سے تین طرح کے ہوتے ہیں۔
ایک وہ جو اپنے لئے گاتے ہیں۔ بس وہ گاتے ہیں اور لطف اٹھاتے ہیں اپنی ذات کی حد تک۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ان کی گائیگی کے طرز، الفاظ کی ادائیگی، دھن کی بنت اور موسیقی کے آلات کے ردھم اور اپنی آواز کے زیروبام کے جوڑ کو کس طرح اور کس ناز سے اٹھانا ہے۔ یہ جنون ساری زندگی ان کے ساتھ چمٹا رہتا ہے وہ کوششوں کے باوجود اس عادت سے جان نہیں چھڑا پاتے۔ ضروری نہیں کہ یہ لوگ صرف برا گائیں۔ چونکہ ان کو صرف اپنی ذات تک گلوکاری سے عشق ہوتا ہے اس لئے وقت کے ساتھ ان کے فن میں نکھار کا آنا لازمی ہوتا ہے۔ وقت، برداشت اور محنت ان کے فن کو روانی، ردھم اور آہنگ عطا کرہی دیتا ہے۔
دوسرا طبقہ سامعین و ناظرین کے لئے گا نے والوں کا ہے۔ ان کو موسیقی سے صرف اتنی ہی دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ اس کی وجہ سے محفلوں کی جان بنے ہوتے ہیں۔ یا معاشرہ ان کو ان کے فن کی وجہ سے عزت دیتا ہے۔عموما معاشرہ ایسے افراد کو موسیقی، موسیقار اور گلوکاروں پر ڈھائے جانے والے ہر ستم کے بعدبھی احترام کا ایک غیر محسوس درجہ دے ہی دیتا ہے۔اس طبقے کا عموماً روزی روٹی بھی موسیقی سے وابستہ ہوتا ہے اس لئے ان کے لئے گائیگی ایک طرح سے زندہ رہنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔یہ طبقہ اپنے فن میں نکھار لانے کے لئے دن رات محنت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ریاض کے نام پر ساری زندگی ایک مستقل ہوم ورک ان کی زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔چونکہ زندگی کی بہت ساری ضروریات ان کے فن سے جڑے ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے سامعین و ناظرین کو بہتر سے بہتر مواد پیش کرنے کی کوشش میں زندگی تیج دیتے ہیں۔ کمال فن ان کو بھی میسر آئے ناممکن تو نہیں۔ قدرت کسی کی محنت رائیگان جانے کبھی نہیں دیتی۔
تیسرا طبقہ!یہ کمال کے لوگ ہوتے ہیں، کوشش اور ڈھیر ساری لاپرواہیوں کے باوجود موسیقی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرپاتے۔اس بات سے سب ہی متفق ہیں کہ دنیا میں ہر انسان کی تخلیق ایک مخصوص فن میں مہارت کے ساتھ کی گئی ہے ایک شخص ایک ہی وقت میں بہترین لوہار، سنار، گلوکار، ڈرائیور، سیاست دان، منتظم یا پھر تمام مروجہ فنون میں ماہر نہیں ہوسکتا جس ایک کام کی مہارت قدرت کی طرف سے عنایت کی گئی ہے اگر آپ اسی شعبے میں موجود ہیں تو دنیا کو اپنی تخلیق کی وجہ رخصتی سے قبل ثابت کر چکے ہوتے ہیں۔ہر انسان کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ قدرت کی عنایت کردہ اپنی اس صلاحیت کو تلاش کرسکے۔ تاکہ کامرانیوں کے دروازے ان پر وا ہوسکیں۔اور معاشرے کو بھی اس شعبے کا بہترین مل سکے۔
منصور شباب بھی اسی قدرتی انعام کے ساتھ گلوکاری کے لئے پیدا کئے گئے اس تیسرے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ان کی محفل سے پیرومرشد، ساقی و شیخ، انس و جن سبھی جھومتے ہوئے نکلتے ہیں۔ ایسے سرور میں مبتلا ہوکر کہ پھر کئی دنوں اس سحر سے باہر نکلنا ان کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ ان کی آواز میں آبشاروں کا گرتا ہوتا ترنم، بارش کا سبز پتوں پر گرتا ہوا ساز، برف باری میں چلتے ہوئے کانوں کی لوؤں کو ٹچ کرتے ہوئے گرنے والی برف کی خاموشی،بے آب و گیاہ ویرانے میں رات گزارتے ہوئے اپنی ہی سانسوں کی آہنگ کو سننے کا تجربہ سب کچھ موجود ہے۔ان کی آواز میں ”سنار کے سو کے ساتھ لوہار کا ایک“ دونوں موجود ہیں۔ ان کی محفل میں بیٹھا ہر شخص سنار کے لکھنوی تہذیب کے مدھم سروں میں جب ڈولنے لگتا ہے تب ہی وہ لوہار جیسی چنگیزی پر اتر آتے ہیں۔ مگر کمال ان کا یہی ہے کہ جب وہ موسیقی کو برتنے لگتے ہیں تو ان کی چنگیزی بھی دل کو بھلی ہی معلوم ہوتی ہے۔
ستار پر جب ساز چھیڑی جاتی ہے تو منصور پھر منصور نہیں رہتاوہ سرتا پا موسیقی بن جاتا ہے۔ ان کے رواں رواں سے موسیقی برآمد ہی نہیں ہوتی بلکہ آبشاروں کی طرح بہنے لگتی ہے۔وہ سیکنڈوں میں محفل میں موجود تمام ذی روح پر قابض ہوجاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنے میں تمام اہل محفل شش و پنچ میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ روح کا خیال رکھیں، موسیقی کا یا پھر سب کچھ چھوڑچھاڑ کر منصور کی مریدی اختیار کرلیں۔