داد بیداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔پارلیمانی مبا حثوں کی روا یت

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔پارلیمانی مبا حثوں کی روا یت
پارلیمانی مبا حثوں کی روا یت
پارلیمانی مبا حثوں کی روایت کم و بیش 700سالوں پر محیط ہے بر طانوی دار العوام کو دنیا کا پہلا پارلیمنٹ کہا جا تا ہے دار لا مراء بر طانیہ کا سینٹ یا ایوان با لا ہے قائد اعظم کے سوا نح نگاروں نے لکھا ہے کہ محمد علی جناح جب بر طانیہ میں مقیم تھے ملا قا تیوں کی گیلری میں بیٹھ کر برٹش پا رلیمنٹ کی کاروائی دیکھتے اور سنتے تھے کیونکہ پارلیمانی مبا حثوں کا معیار بر طانیہ کے ادبی اور قانونی حلقوں میں ہونے والے مبا حثوں سے بھی اعلیٰ اور اونچا ہو تا تھا پارلیمانی مبا حثوں کو سننے کا لطف آتاتھا وطن عزیز پا کستان کا پارلیمانی نظام بر طانوی ہند کے سیا سی نظام کا تسلسل ہے لیکن ہمارے ہاں پارلیمانی مبا حثوں کی شاندار روایت دم توڑ چکی ہے اب قو می اسمبلی، صو بائی اسمبلی، ایوان ِ بالا اور سبزی منڈی میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے وجہ یہ ہے کہ ہماری سیا سی قیا دت نے بازار اور پا رلیمنٹ کا فرق مٹا دیا ہے پارلیمنٹ میں بھی وہی زبان استعمال ہورہی ہے جو بازاری زبان کہلا تی ہے اس زبان کے استعمال کے لئے تعلیم کی شرط نہیں، مطا لعے کی ضرورت نہیں، تجربے کی کوئی قید نہیں کوئی بھی اپنی نشت سے اُٹھ کر بلا جھجک بازاری زبان بول سکتا ہے اس گفتگو کو سننے کے لئے ملا قا تیوں کی گیلری میں کوئی کیسے جا ئے گا، ٹیلی وژن سکرین پر پا رلیمنٹ کی کاروائی آتی ہے تو لوگ چینل بدلنے پر مجبور ہوتے ہیں الزا مات، جو ابی الزا مات، گا لیاں اور گا لیوں کا جواب ایک گھنٹے کے اجلا س میں سپیکر کو 28دفعہ حذف (ایکسپنچ) کا لفظ استعمال کرنا پڑا معزز رکن اسمبلی بولتا ہے ہر دوسرے منٹ میں ایسا لفظ آتا ہے جو گا لی کے مترا دف خیال کیا جا تا ہے سپیکر اس لفظ کو کاروائی سے حذف کرنے کا حکم دیتا ہے ایک زمانہ وہ بھی تھا جب کسی معزز رکن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جا تا تھا ”میرے فاضل دوست نے یہ کہا“ یا ”فاضل رکن اسمبلی نے یہ کہا“ اب یہ اسلوب اور انداز سننے کو نہیں ملتا وجہ یہ نہیں کہ اسمبلی میں عالم اور فاضل لو گ نہیں ہیں وجہ یہ ہے کہ شائستگی نے گفتگو سے منہ موڑ لیا ہے اب گفتگو میں تمیز، تہذیب اور آداب کا خیال نہیں رکھا جا تا پارلیمنٹ میں تین موا قع ایسے ہو تے ہیں جن کے لئے ارا کین کو خا ص طور پر تیاری کرکے آنا پڑ تا ہے پہلا مو قع وہ ہے جب مشترکہ اجلا س سے صدر کے خطاب پر بحث ہوتی ہے دوسرا مو قع وہ ہے جب کوئی بل اسمبلی میں قا نون سازی کے لئے پیش ہو تا ہے، تیسرا مو قع وہ ہے جب بجٹ پر بحث ہوتی ہے ان خا ص موا قع کو اگر دنوں کے حساب سے دیکھا اور پر کھا جائے تو لا زمی سیشن کے 100دنوں میں سے 72دن شما ر ہوتے ہیں ان مو اقع کے علا وہ پرائیویٹ ممبر ز ڈیز بھی بہت اہم دن ہو تے ہیں عام دنوں میں فاضل اراکین اسمبلی کو تحریک التوا، تحریک استحقاق اور توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے اپنی بات کہنے کے مو اقع ملتے ہیں اور فاضل ممبر ہر ایسے مو قع سے بھر پور فائدہ اٹھا تا ہے پا کستان کی پارلیمانی تاریخ میں سردار شوکت حیات، مولا نا عبد الستار خان نیا زی، ڈکٹر شیر افگن نیا زی، مولا نا شاہ احمد نو رانی، مولا نا غلا م غوث ہزار وی، خان عبد الولی خان، نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا مفتی محمود، ذولفقار علی بھٹو اور ان کے قد کاٹھ کے دوسرے لیڈر ایسے تھے جو اپنے وسیع مطا لعے کی بنیاد پر عالمی تاریخ اور عالمی ادب سے مثا لیں دے کر اسمبلی کی کاروائی کو اعتبار بخشتے تھے نئے آنے والے پارلیمنٹرین اُن سے بات کا سلیقہ سیکھتے تھے ڈاکٹر شیر افگن نیا زی اتنی تیا ری کر کے آتے تھے کہ ہر بات پر آئین کا کوئی نہ کوئی دفعہ یا آر ٹیکل بطور حوالہ پیش کرتے تھے فاضل اراکین ایک دوسرے کو لطیف پیرایے میں جواب بھی دیتے تھے اس کو ”نوک جھونک“ کہا جاتا تھا بسا اوقات اشعار یا لطیفے سنا ئے جا تے ایسے مو اقع پر کہا جا تا تھا کہ ایواں زعفراں زار بن گیا اب ایسے موا قع نہیں آتے صدر کے خطاب پر تبصرہ بھی الزا مات کی نذر ہو جا تا ہے، بجٹ اجلا س بھی گا لی با زی اور دشنا م طرازی میں صرف ہو تا ہے بل پیش ہونے کی نو بت آئے توشور شرابہ اور غل غباڑہ انتہا کو پہنچ جا تا ہے اس شور وغل میں کسی بحث کے بغیر بل پا س ہو جا تا ہے قانون بن جا تا ہے کسی کو بولنے کا مو قع نہیں ملتا چنا نچہ پارلیمنٹ کی کاروائی رپورٹ کرنے والے اخبار نویس بھی اس صورت حال سے تنگ آگئے ہیں لا ء کا لج یا پو لٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے طلباء ایوان کی کاروائی دیکھنے میں ذرہ برابر دلچسپی نہیں رکھتے پارلیمانی مبا حثے کی روا یت دم توڑ چکی ہے اب پارلیمنٹ کے ایوان اور سبزی منڈی میں کوئی فرق نہیں رہا۔