داد بیداد۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑے ہسپتالوں پر دباؤ
بڑے ہسپتالوں پر دباؤ
ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ بڑے ہسپتا لوں پر مریضوں کا بڑھتا ہوا دباؤ کم کرنے کے لئے ڈویژن اور اضلا ع کی سطح پر ڈاکٹر وں کو سختی سے ہدایت کی جائے کہ وہ مریضوں کو بڑے ہسپتا لوں کی طرف ریفر (Refer) کرنے سے گریز کریں فیصلے کی خبر اخبارات میں آنے کے بعد چھوٹے ہسپتا لوں میں اس پر بحث شروع ہوئی ہے اس بحث کا اہم سوال یہ ہے کہ 1974ء میں خیبر پختونخوا کے اندر صحت کے نظام کو مر بوط بنا نے کے لئے جو منصو بہ بند ی کی گئی تھی اس کے نتائج کا کیا حال ہوا ہے؟ 46سال پہلے یہ منصو بہ بنا یا گیا تھا کہ ہر ضلع میں 26چھو ٹے ہسپتال، 4درمیانہ درجے کے ہسپتال اور ایک بڑا ہسپتال بنا یا جائے گا ڈویژن کی سطح پر ایک اور بڑا ہسپتال ہو گا ان ہسپتا لوں میں علا ج معا لجہ کی تما م سہو لتیں دستیا ب ہو نگی تو صو بائی دارلحکومت کے ہسپتالو ں پر مریضوں کا دباؤ کم ہو جائے گا 1980ء کے عشرے میں ہسپتالوں کی تعمیر کا کام مکمل ہوا بعض ہسپتال 1980سے پہلے مکمل ہوئے تھے عما رتوں کی تعمیر کے بعد علا ج معا لجہ کا جو نظام قائم کرناتھا وہ اب تک نہیں ہوا کوہستان، بٹگرام اور چترال کا ذکر نہ کریں پشاور کے قریب کو ہاٹ روڈ پر سٹیلا ئیٹ ہسپتال قائم ہوا تھا وہ بھی اب تک علا ج معا لجہ میں بے بس ہے مو لوی جی ہسپتال ہشتنگری میں قائم ہوا تھا وہ بھی بد حالی سے دو چار ہے چنا نچہ چاروں طرف سے مریضوں کا دباؤ پشاور میں واقع صوبے کے تین بڑے ہسپتالوں پر آپڑتا ہے اور اخبارات میں آئے روز جو خبریں آتی ہیں ان خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے ہسپتا لوں میں بھی سب اچھا نہیں ہے گزشتہ 7سالوں میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیو شنز (MTIs) کا نظم و نسق بھی تبا ہی سے دو چار ہوا ہے آج اگر حکو مت اصلا ح احوال کے لئے سنجیدہ کو ششوں کا آغاز کر تی ہے تو ان کو ششوں کے نتا ئج آنے میں کم از کم 5سال کا عرصہ لگیگا مگر سو ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ سنجیدہ کو ششوں کا آغا ز کہاں سے کیا جائے؟اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ انگریزی اصطلا ح کی رو سے ڈیٹا بیس کی مدد لی جائے ڈیٹا بیس میں BHUsاور RHCsکا ریکارڈ محفوظ ہو گا، THQsاور DHQsکا ریکارڈ محفوط ہو گا اس ریکارڈ سے مدد ملے گی کہ بٹگرام، کوہستان، دیر، چترال اور شانگلہ کے ہسپتا لوں میں کتنی سہو لتیں دستیاب ہیں؟ کتنے آرتھو پیڈک سر جن وہاں کام کر تے ہیں؟ کتنے ہسپتا لوں میں سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی سہو لت دی گئی ہے؟ اضلا ع کی سطح پر کتنے کا رڈ یا لو جسٹ ہیں؟ کتنے جنرل سرجن ہیں؟کتنے ما ہر ین امراض چشم ہیں؟کتنے ای این ٹی سپشلسٹ ہیں؟کتنے گائنی سرجن ہیں؟ کتنے یو را لو جسٹ ہیں؟ کتنے میڈیکل سپشلسٹ ہیں؟ اور کتنے پتھا لو جسٹ ہیں؟ دو دنوں میں پتہ لگ جائے گا کہ ڈاکٹر وں کی کیا پو زیشن ہے؟ اس طرح ایکسرے، لیباٹری اور دیگر لا زمی ضروریا ت کا پتہ لگ جائے گا اور خو د بخود معلوم ہو گا کہ ایک ضلع سے ہر ما ہ ایک ہزار مریضو ں کو پشاور ریفر کرنے کی وجو ہات کیا ہیں؟ ہمارے بی ایچ یو اور رورل ہیلتھ سنٹر میں انگریزوں کے زمانے کی ڈسپنسری جیسی سہو لیات بھی میسر نہیں ہیں اس وجہ سے مریض ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال کا رخ کرتے ہیں ضلع کے سب سے بڑے ہسپتال میں جنرل سر جن کی آسامی خا لی ہے میڈیکل سپشلسٹ کے سوا کسی بھی شعبے میں کوئی سپشلسٹ ڈاکٹر نہیں ہے، آر تھو پیڈ کس، کارڈیا لو جی اور یو را لو جی کا کوئی وارڈ ہی نہیں ہے لیبا رٹری میں ”کلچر“ جیسے عام ٹیسٹ کی سہو لت نہیں دی گئی سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھا ایکسرے پلا نٹ کبھی بجلی کی وجہ سے کبھی فلم شارٹ ہونے کی وجہ سے سال کے 8مہینے بند رہتا ہے اس ہسپتا ل کا ذمہ دار ڈاکٹر اگر مریضوں کو شہر کی طرف ریفر نہیں کرے گا تو اس کے پا س اور کیا چارہ رہ جائے گا اگر حکومت کو خیال آگیا ہے کہ شہر کے بڑے ہسپتا لوں پر دور دراز دیہات سے آنے والے مریضوں کا دباؤ کم ہونا چاہئیے تو اس کا سیدھا سادہ حل یہ ہے کہ اضلا ع کی سطح پر چھوٹے اور درمیا نی درجے کے ہسپتا لوں میں علا ج معا لجہ کی لا زمی سہو لیات فراہم کی جائیں ڈی ایچ کیو ہسپتا ل میں آرتھو پیڈک سر جن نہیں، سر جری کی سہو لیات نہیں ملٹی پل فریکچر کے مریض کو یقینا شہر کے بڑے ہسپتا ل بھیجنا پڑے گا یہ اچھی بات ہے کہ حکو مت کو شہر کے بڑے ہسپتا لوں پر مریضوں کے دباؤ کا علم ہو گیا ہے اس دباؤ کو کم کرنے کے لئے ایک حکمنا مہ کا فی نہیں ہو گا اس کے لئے سنجید گی اوراخلا ص کے ساتھ کام کر کے اضلا ع کی سطح پر چھوٹے اور درمیانہ درجے کے ہسپتا لوں میں علا ج معا لجہ کی بنیا دی اور لا زمی ضروریات کو پو را کرنا ہو گا ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ شہر کے بڑے ہسپتا لوں میں سیا سی مدا خلت کا سد باب کیا جائے غیر متعلقہ افراد کے ذریعے ہسپتا ل انتظامیہ کو ہرا سان کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے کہ 2014سے 2020تک جو انتظا می فیصلے کئے گئے وہ سب غلط تھے ایسے فیصلوں کو واپس لیکر بڑے ہسپتا لوں کو 2013کی پو زیشن پر دوبارہ بحا ل کرنے سے اصلا ح احوال کی صورت پید ا ہو گی اگر ان امور پر توجہ نہ دی گئی تو اعلیٰ سطحی اجلا س محض ”سطحی اجلا س“ بن کر رہ جائے گا اور بڑے ہسپتا لوں پر مریضوں کا دباؤ جاری رہے گا ٹرشیری ہیلتھ کیر پر دباؤ کم کرنے کا مسلمہ طریقہ یہ ہے کہ پرائمیری ہیلتھ پر توجہ دی جائے