دینی تقاضے اور ہماری ترجیحات ،،،،،،،،،،،،،،،،،، تحریر: اقبا ل آف برغذی
ایک دکان میں بیٹھا تھا۔ قریبی مسجد میں آذان ظہر شروع ہوئی۔ موذن کی زبان سے دعوت کے لئے نکلنے والے الفاظ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مکمل طور پر ناقابل فہم اور انوکھے تھے۔ قرات کے انداز میں دی جانے والی مذکورہ آذان کے بارے میں مسجد کے مقتدی ہونے کی بنیاد پر دکاندار سے جب استفسار کیا۔ تو وہ مسکراتے ہوئے فرمانے لگا۔کہ دراصل موذن آن پڑھ آدمی ہے۔ مسجد کی بیٹھک کے امور بڑی خوش اسلوبی،دلجمعی اور سلیقے سے اداکرتے ہیں۔اس لئے خاموشی سے اس درد کوبرداشت کرتے ہیں۔
دینی اقدار کو دنیاوی امور کی بھینٹ چڑھانے کا یہ منطق اپنی نوعیت کے لحاظ سے قابل حیرت نہیں۔ کیونک دنیاوی مفادات کا حصول ہماری پوری زندگی کے محور کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ دنیاوی کاموں میں لکیرٹیڑھی ہونے کو گوارہ نہیں کرتے۔ مگر ایک بڑے دینی خسارے کو محسوس تک نہیں کرتے۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ نظام حیات حفظ مراتب پر عملداری سے مربوط ہے۔اگر گھر کے اندر باپ کی حیثیت کے برعکس اولاد کردار ادا کریں گے۔ تو گھر کا نظام اجڑھ جانا یقینی ہے۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے عظیم ملک کی باگ ڈور ایک دفعہ بھی باشرع(باریش) فرد کے حوالے کرنے کی بجائے۔اس کے لئے آنہونی معیار مقرر کرنے کے منفی اثرات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اس طرح دینی معاملات کی انجام دہی جُہلا (جاہل لوگوں) کی نذر ہوجائے۔ تو مذہب میں بگاڑ کے خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
درحقیقت ہم دینی تقاضوں کے مقابلے میں اپنی ترجیحات کو مقدم سمجھنے کی کفییت سے دوچار ہیں۔ ہر شعبۂ حیات میں اس سوچ اور تصور کا رنگ نمایان طور پر جھلکتا ہے۔ ہم عزت واکرام کو منصب،دولت اور حسب نسب کے پیمانے میں ناپتے ہیں۔حالانکہ دین تقویٰ اور پرہیز گاری کو اس وصف کے لئے معیار قراردیتا ہے۔ مذہب کے رنگ میں خود کورنگین کرنے کی بجائے بدلتے ہوئے ادوار کے آئینے میں خود کو سنوارنے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ معیاری تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کرکے اچھے نمبروں سے پاس ہوکر اعلیٰ عہدوں پر فائز دیکھنے کی آرزو ہردل میں مچلتا ہے۔مگر ان کی اخلاقی تربیت کرکے اعلی ٰ انسان کے روپ میں دیکھنے کا خیال تک نہیں کرتے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ پیسے حاصل کرنے کاگُر اور راستے دیکھاتے ہیں۔مگر دکھی انسانیت کی خدمت کا چراغ ان کے دل میں روشن کرنے کی کاوش نہیں کرتے۔رشتے ناطوں کے لئے شکل وصورت اور معاشی حالات کو پیمانہ بناتے ہیں۔ اور اخلاق،کردار اور دینی اقدار کی پاسداری کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ہم پیالہ ٹوٹنے کا نوٹس لیتے ہیں مگر نماز کی صورت میں اللہ رب العزت کا عظیم حکم ٹوٹنے سے ہمارے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر نہیں آتے۔ ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا ماننے کی راہ میں نفس کے تقاضے مانع ہوتے ہیں۔ہم تقدیر کو تسلیم کرتے ہیں۔مگر سر پر آنے والے حالات کے لئے تاویلین ڈھونڈتے ہیں۔ ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہماری مانتے ہیں۔ مگر اغیار کی طرز زندگی کی طرف رغبت اور میلان رکھتے ہیں۔
مختصر یہ کہ یہ وہی محرکات ہیں۔جن کی بنیاد پر دینی تقاضوں کے مقابلے میں ہماری اپنی ترجیحات کو فوقیت حاصل ہونا نمایان ہوکر سامنے آتے ہیں۔ جو ہماریدعووں پر سوالیہ نشان کے مترادف ہیں۔