داد بیداد۔۔لو کل گورنمنٹ پر سوالیہ نشان۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

خیبر پختونخوا اسمبلی نے پینڈیمیک کنٹرول اینڈ ایمر جنسی ریلیف بل منظور کر لیا ہے بل کے ذریعے کورونا وباء کی وجہ سے لو کل گورنمنٹ کے انتخا بات کو دو سا لوں کے لئے مو خر کر نے کا قانون بنا یا گیا ہے صو بائی حکومت اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے ساتھ رابطے میں ہے گویا وہ مشہور بات دہرائی گئی جو 1985ء کے ریفرنڈم کی اہم بات تھی رائے دہندگان سے سوال پو چھا گیا تھا کیا آپ مسلمان ہیں اور کیا آپ ملک میں اسلامی نظام نا فذ کرنا چاہتے ہیں اگر جواب اثبات میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ضیاء الحق آئیندہ 5سالوں کے لئے ملک کے صدر بن جائینگے ہم نے سوال کا جواب اثبات میں دیا اور جنرل ضیاء الحق آموں کی پیٹی آنے تک ملک کے صدر بنے رہے ہماری اسمبلی نے جو بل پاس کیا ہے اس کا نام ہے ”عالمی وباء پر قا بو پا نا اور ہنگا می حا لا ت میں شہریوں کی بحا لی کے کام کرنا“ مگر اس قانون کا یہ مطلب ہر گز نہیں اس کا مطلب ہے بلدیا تی انتخا بات کو مزید دو سا لوں کے لئے ملتوی کرنا دو سا لوں کے بعد عا م انتخا بات کا غلغلہ بلند ہو گا اگست 2022ء میں الیکشن کمیشن کہے گی کہ ہم 2023میں عام انتخا بات کی تیاری کر رہے ہیں بلدیا تی انتخا بات کرانا ممکن نہیں ہے 2023ء میں نئی حکومت آگئی تو وہ کہے گی ہمارا مینڈیٹ تسلیم کیا جائے عوام کے مسائل ہم حل کرینگے بلدیاتی انتخا بات کے لئے وسائل دستیاب نہیں ہیں چنا نچہ پھر کسی ایوب خان، کسی ضیاء الحق اور کسی مشرف کے آنے تک بلدیاتی انتخا بات ملتوی ہوتے رہینگے ہمارے دوست سید رضا علی شاہ عر ف عام میں با با کے نام سے مشہور تھے کرا چی میں رہنے کی وجہ سے ملک کی اعلیٰ قیا دت کو قریب سے جانتے تھے وہ عام آدمی کو صمد اور مراد کہتے تھے بعض اوقات جو ش میں آ تے تو صمد خان اور مراد بیگ کہتے بنیا دی جمہوریتوں کا نظام آیا تو اس کا انگریزی نام ”بیسک ڈیمو کریسی“ لکھا گیا جسے مخفف کر کے بی ڈی کہا جا تاتھا جب لو گ بی ڈی کے خلاف بات کرتے تو با با کہتے تھے بی ڈی کو برا مت کہو یہ صمد اور مراد بیگ کی ضرورت ہے ہم دلیل دیتے کہ اس کی جگہ قومی اسمبلی اور صو بائی اسمبلی کے انتخا بات ہو نے چا ہئیں با با کہتے قو می اور صو بائی اسمبلی کے انتخا بات سے صمد اور مراد بیک کو کیا ملے گا؟ کر اچی اور لا ہور میں اسمبلیوں کے اجلا س ہونگے بڈھہ بیر، ٹو بہ ٹیگ سنگھ اور بھا نہ ماڑی کے کو چوان، پا لشی، ما لشی اور نا نبا ئی ان اسمبلیوں سے کیا فوائد حا صل کر ینگے؟ بی ڈی کے تحت بڈھہ بیر، ٹو بہ ٹیک سنگھ اور بھا نہ ما ڑی میں بیٹھا ہو اصمد یا مر اد بیگ اپنا نلکا درست کر وا تا ہے اپنی گلی پکی کر وا تا ہے اپنے چھوٹے مو ٹے مقد مات کے فیصلے بھی کر وا تا ہے اور تھا نہ، تحصیل یا کچہری میں کا م ہو تو بی ڈی کے منتخب نمائیندے اس کے کام آتے ہیں ہم لو گ با با کی با توں کو فلسفیا نہ مو شگا فی کا نام دیتے تھے اُس زما نے میں ہم طا لب علم تھے اور ہمیں صمد یا مراد بیگ کے حقیقی مسائل کا علم نہیں تھا پھر یو ہوا کہ خدا نے ہم کو صمد اور مراد بیگ کی جگہ دیدی اب ہم عام آدمی کی نظر سے دیکھتے ہیں تو با با کی ہر بات سمجھ میں آ جا تی ہے اسمبلیوں میں انگریزی یا اردو کا تقریری مقا بلہ ہو تا ہے اس تقریری مقا بلے میں ہر ممبر اپنے ظر ف، اپنے خاندانی پس منظر اور اپنی گھریلو تر بیت کے مطا بق اظہار بیان کے جو ہر دکھاتا ہے بسا اوقات لو گ ایسے ایسے جو ہر دکھا تے ہیں کہ کا نوں کو ہاتھ لگا نا پڑ تا ہے ایسی تقریروں سے صمد اور مراد بیگ کا بھلا نہیں ہو تا اس لئے عام آدمی منہ دیکھتا رہ جا تا ہے حبیب جا لب نے ایک بار کہا تھا ؎
سرِمنبر وہ خوا بوں کے محل تعمیر کر تے ہیں
علا ج غم نہیں کر تے فقط تقریر کرتے ہیں
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پارلیما نی انتخا بات میں رائے دہی کی شرح 35فیصد سے لیکر 37فیصد تک ہو تی ہے جبکہ بلدیا تی انتخا بات میں 50فیصد سے زیا دہ رائے دہند گان اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ قومی اور صو بائی اسمبلیوں کے انتخا بات سے ہمیں کچھ بھی نہیں ملے گا ہمارے نصف سے زیا دہ مسائل بلدیا تی نما ئندے چننے سے حل ہو جا ئینگے 2018ء کے انتخا بات کے بعد ارا کین اسمبلی کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ ضلع نا ظم صو بائی اور ضلعی سطح کی میٹنگوں میں ہمارے برابر آکر بیٹھتا ہے اختیا رات میں حصہ مانگتا ہے اور قدم قدم پر رکا وٹیں پیدا کرتا ہے حکومت نے اس کا یہ حل نکا لا کہ ضلع نا ظم کا عہدہ ختم کر دیا اس نا م پر بھی پا بندی لگا دی نہ رہے بانس نہ بجے بانسری پھر بھی اراکین اسمبلی کو تسلی نہیں ہوئی ان کا ا عتراض یہ ہے کہ سرکاری فنڈ گا وں کی سطح پر جا کر عوامی ضرورت کے منصو بوں پر خرچ ہو گا تو ہمارے پاس کیا رہ جائے گا؟ صو بائی سطح پر ایک بڑی میٹنگ میں بلدیاتی نظام کے حا میوں نے وزیر اعظم کی تقریر سنائی وڈیو ستمبر 2014کی ہے اُس وقت کے اپو زیشن لیڈر عمران خان اونچی آواز میں کہتے ہیں ”ہم اقتدار میں آگئے اور انشاء اللہ نیا پاکستان بنا نے کا مو قع مل گیا تو قوم کے وسائل بلدیاتی نما ئیندوں کے ہاتھ میں دیئے جائینگے پار لیمنٹ کے ممبروں کو کسی طرح کا تر قیا تی فنڈ نہیں ملے گا نا لیاں بنا نا اور گلیوں کو پختہ کرنا اراکین پارلیمنٹ کا کام نہیں یہ قومی وسائل کا ضیاع ہے یہ لوٹ مار کا طریقہ ہے ہم اس کی اجا زت کبھی نہیں دینگے“ بلدیاتی نظام کے مخا لفین کہتے ہیں کہ اس وقت سب کو مل کر وزیر اعظم کے ہاتھ مظبوط کرنے کی ضرورت ہے وزیر اعظم کو اراکین پارلیمنٹ کا اعتماد چاہئیے اتحا دیوں کو ساتھ لیکر آگے بڑھنا چاہئیے یہ بلدیا تی انتخا بات میں وقت ضائع کرنے کا مو قع نہیں ہے یہ بات اہم تھی اس لئے حکومت نے قانون سازی کے ذریعے بلدیا تی انتخا بات دو سالوں کے لئے ملتوی کرادیئے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟