٭ فرمائش۔
ہمارے ایک ”خلائی“ دوست کمال الدین کا کہنا ہے کہ وہ ” قدیم دور“ میں چترال کے ”علی گڑھ“ میں جناب سکندر مرحوم استاد کے ہاتھوں ” مولابخش “ کھانے میں ہمارے مقابل کے کھلاڑی رہے ہیں اور آج کل ” قطر“ میں ملازمت کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں۔
؎ عاشقی کا ہو بُرا اس نے بگاڑے سارے کام ہم تو بی اے میں رہے اغیار بی اے ہوگئے
حاجی صاحب کا کہنا ہے ” اکثر راتیں ہماری بھی ”ستار و سیمان سوم اشٹوک کوریکا ……. و ا چیدینو چکیے لو دییکار مجبور کو ریکا بیران“ بس کمی ہے تو فضل الرحمان شاہد صاحب کی؟احباب قطر کی فرمائش ہے کہ فضل الرحمان شاہدؔ اور چیرمین شوکت علی شوکتؔ کے حالات زندگی اور شاعری کا ”تذکرہ“ کروں۔ “
کمال صاحب آپ نے کمال ہی کر دیا آپ کے اضافی کلمات کو ہضم کرتے ہوئے میں شکریہ کے ساتھ آگے بڑھتا ہوں۔جن دو دستوں اور بزرگوں کے حوالے سے آپ نے فرمائش کی ہے وہ چترال کی ایسی ہستیاں ہیں جن پہ مجھ ناچیز سے تبصرہ کروانا ایسا ہی ہے جیسے ”قطر“ کے بحر بے کران کے سامنے ”انگارغون واٹر سپلائی“ کے چٹ چٹ ٹپکتے ہوے پانی کے بوند۔ چترال جو علم و ادب کا گہوارا رہا ہے اور ہر دور میں ”ادب“ کی آبیاری کے لیے رب کریم نے دل کھول کے اس دھرتی کو نوازا ہے۔ بقول رئیس امروہوئی
؎ ہے یہی حالت تو ہر مولود پیدائش کے بعد سانس لیتے ہی پکارئے گا کہ ” مطلع “ عرض ہے۔
میرے محترم دوست جناب شاہدؔ اگر ہاتھ لگے تو احباب کی خواہش کی تکمیل کر سکوں گا۔ وہ ”دبستان کوغذی“میں کہیں کھو سے گئے ہیں۔ اگر ملاقات ہوئی تو وعدہ نبھا ہوسکے گا۔ چترال کے موجودہ شاعروں میں جناب چیرمین شوکتؔ صاحب میرے بھی پسندیدہ شاعروں میں سر فہرست شاعر ہیں اس لیے پہلے اس سے ”دو دو ہاتھ“ کر لیتے ہیں شریف و خاکسر آدمی ہیں ”اضافی فائر“ والے آلات سے بھی سروکار نہیں رکھتے بس اپنی ہی شان و شوکت میں رہنے کا ”ہنر“ جانتے ہیں۔ قوی امید ہے اس تحریر کا بھی اسے کانوں کان خبر نہیں ہوگی کیوں کہ وہ…. اپن… کی طرح… شو شل میڈیا… کی دینا سے بہت دور ہیں۔
”امیر قطر“کی طرح جناب شاہدؔ ”جلالی“ ہونے کے ساتھ ساتھ ہزاروں ”شاہدوں“ سے ”مسلح“ ر ہتے ہیں اس لیے ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ”فیس بک“ کی… چوک… میں ہمیں… لٹکا… ہی دیں۔
؎
یوسف کا اپنے دھیاں ہے تحریر خط کے وقت ڈر ہے کہ انگلیاں نہ قلم ہوں قلم کے ساتھ
٭ شوکتؔ۔
جناب شوکت علی…. کا تعلق چترال کے مشہور معارف علمی شخصیت میرزا غفران مرحوم کے گھرانے سے ہے (جسے اگر ریاستی عہدئے کی زنجیروں میں مقید نہ کیا جاتا تو آج بہت سے علمی ذخائیر سے ہمیں مستفید ہونے کا موقع میسرآتا جو ”میر منشی“کے فائلوں تلے دب کے رہ گئے) جناب شوکت علی خدا جھوٹ نہ بلوائے تو غالباََ 1948 ء میں مرحوم غلام جعفر کے ہاں شاعری کا درد اور ہنر لیے پیدا ہوئے ”سیانوں“نے ہاتھ کی لکیروں سے کھیل کر مزاج ”دلبرانہ“ کا اندازہ لگالیااور متفقہ ”قراداد“کے تحت فیصلہ کیا کہ بچے کا نام ”شوکت“ رکھا جائے تاکہ مستقبل میں جاکے نام میں کوئی ”ترمیم“ نہ کرنا پڑے۔ جس طرح اردو ادب میں ”دہلی“ اور”لکھنو“ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے اسی طرح ”گولدور، زرگران دہ، جنگ بازار کو بھی قدئم آیام سے ہی فارسی اور کھو تہذیب و ثقافت، علم و ادب کے حوالے سے نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔اس لیے خاندان سے لے کر احباب تک۔ سکول سے کھیل کے میدان اور شام کے بزم یاران تک کی ساعتیں روز شور سے میسر آتیں گئیں۔ یہاں تک کے نوجوانی کے ”قاتل آیام“ آگئے تو ” سنیرکلب“ میں چترال کے ”ہوی ویٹس“ جن میں مرحوم ژانو یار، مرحوم صوبیدار محبوب، مرحوم امیر گل،،مرحوم پھوک برار، مرحوم شہزادہ بیغش، مرحوم شہزادہ فخرالملک، مرحوم حیدری، سمندر، رستم۔ مرحوم گل نواز، مرحوم فیگار ،جیسے ”ہیروں“ کو دیکھنے سننے اور جاننے کا موقع ملا۔1976 ء میں جونیئر کلب کے زیر اہتمام مشاعرئے میں ”غزل خواں“ ہوئے 1982 ء انجمن ترقی کھوار کے ممبر بننے۔اس کے علاوہ کئی اورثقافتی تنظیمات سے وابسطہ رہے البتہ ”الفتح“ ایک ثقافتی تنظیم کے بانی اراکین میں شامل رہے اور اس تنظیم کے ”چیرمین“ رہے اور اسی مناسبت سے ”چیرمین“ ان کے نام گرامی کا جز بن گیا جو ان کی ثقافتی دنیا میں پہچان بھی بنی۔جناب شوکت علی صاحب کو امیر گل مرحوم کے بعد چترال کے قدیم طرز شاعری کا ”امین“ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
چیر مین شوکت علی صاحب بے شمار کمالات سے مزین ہیں یہ دیور میں لٹکے ہوئے ستار کی جانب نگاہ اٹھائیں تو ”ساز“ بجنے لگتاہے۔”آہنگ“ کی دم توڑتی دنیا کے آخری”مکین“ ہیں۔ اس کے علاوہ…. شوخ اور شوکھور بڑاچو لو … ان کے… ذنبیل… میں ڈھرے ڈالے ہوتے ہیں۔ اگر سرما کی طویل راتوں میں بغیر آگ کے کسی کے ساتھ ”گپ شب“ میں …نار کوکو… کے چوڑیک تک بیٹھا جاسکتا ہے تو وہ چیرمین شوکت علیؔ ہیں۔ شوکت کی مقبولیت کے نہ صرف عام لوگ گرویدہ ہیں بلکہ کے کھوار ادب کے استاد شعرا بھی شوکت کے لیے پلکیں بچھانے میں دیر نہیں لگاتے۔ان کے کلام میں غزل، گیت، مرثیوں کے اعلی اقسام شامل ہیں ہمیں بچپن سے ہی الفتح کے ”فاتحانہ“ محافل میں ان کے جوہر دیکھنے کے بار بار مواقع نصیب ہوئے ہیں۔،شکورؔ، یسار ؔ کی طرح درد کی ابیاری کرتے ہیں اور جب بھی لکھا قلم اور شاعری کو سرخرو کیا۔جناب بابافتح،مرحوم مولانگاہ، مرحوم پہلوان بہادر، جناب سلطان غنی،جناب کریم خان۔ حضرت جبار۔کے
ساتھ درجنوں یادگار محافل میں انہیں واوہ واہ، دادو تحسین اور شاباشیوں کے تمغہ بسالت سمیٹتے دیکھے۔ اس دور کے ”خلفشاری“ ادب میں ان کی شاعری میں ایک عجیب سنجیدگی،درد مندی، نزاکت،شائستگی،اخلاص مندی، اپنائیت، تازگی اور پاکی محسوس ہوتی ہے۔ اصلاف کے ورثہ کی نگہبانی اور حفاظت کے لیے اس کی شاعری ہمیشہ بے نیام رہتی ہے تاکہ بھولوں کوراستے کے تعین میں آسانی ہو۔انداز بیان میں نزکتوں،لطافتوں،تشبہات،اور تمثیلاات کے گلستان کھلائے رکھتے ہیں۔چترال کے ہر دل لذیذ شاعراور نامور موسیقار کو چترال کے معاروف گلوکارو ں نے ایسے والہانہ شوق سے گایا کہ جہاں بھر سے واہ واہ کی پکار سنائیں دیں۔چترال ٹاؤن میں ڈاکٹر فیضی، جناب گل مراد حسرت،جناب عرفان، جناب منیجر معین الملک، جناب تنویر، جناب افضل جناب صالح،جناب فہام، جناب صادق اللہ،جناب معزالدین، جناب منصور، جناب مسرت ان کے ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جناب شوکت صاحب ایک سخن ور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شرین زبان دستان گو بھی ہیں اپنے یادگار محافل، اسفار اور واقعات بہت ہی میٹھاس سے بیان کرنے کا فن جانتے ہیں۔ اگر چہ کم گو ہیں مگر جب جوابی یلغار کرتے ہیں تو…. رستم نیاز… جیسے ” ٹینک شکن“ کو بھی … دانت پیسنے.. پر مجبور کردیتے ہیں۔
جناب شوکت کے بے شمار گیت، غزل،مرثیے شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ لیکن پردیس کے یاروں کے لیے میں اپنے پسند کے چند منتخب کلام کے منتخب نمونے پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں جو یقینا قارئین کو پسند آئیں گے۔
امیر گل مرحوم جب بیمار تھے عین ان ہی آیام میں میں نے ”چترال کا آمیرؔ“ کے عنوان سے روزنامہ مشرق، پیغام، جدت پشاور اور مالاکنڈ ٹائمز کے لیے ایک مضمون تحریر کیا جو دو اخبار میں امیر کی زندگی میں اور دو میں ان کے وفات کے چند دن بعد وہ شائع ہوئے۔ اسی سانحے سے متاثر ہوکے جناب شوکت نے امیر گل مرحوم کی یاد میں ایک مرثیہ لکھ کرمرحوم سے اپنی عقیدت اور ”ادب شناسی“ کا بھر پور حق ادا کیا جو کھو ادبی دنیا کے لیے ” ایٹمی دھماکے“ سے کم نہ تھا۔ اسی مرثیے کو جناب بابا فتح الدین نے جناب شوکت ہی کے دیے ہوئے دھن میں اتنی سوز اور درد سے گایا کہ آج بھی ہم آنکھوں میں نمی محسوس کرتے ہیں۔ اس کے کچھ بول یوں ہیں۔
؎ آسمانہ اریر استاری ژای ریکو تن اصلی مقام توریتائے ریکو
لڑیم کہ گیتی تتے بغائے ریکو خاکتو دہ شرانہ ہائے ہائے
عارفانن جیرا کوسکی نام دی شیر ا، م، ی، ر،گ، پیش، ل دی شیر
تہ غزلہ نظمہ سوز و غم دی شیر سوختہ پروانہ ہائے ہائے
یہ فانی دنیارہ امیر گل بغائی چوڑی گلستانار ی بلبل بغائی
شاہ ثقافت استاذ کھل بغائی غیچھاری پچھانہ ہائے ہائے
پیدا کیہ لوٹ شہرا قست کی تو بیسو توخور کیہ زبانہ ہس کی لو دیسو
درد ؔ و چے غالبوؔ جیرا تو گیسو ہیچتائے تمنا ہائے ہائے
اسی طرح ایک اور شہکار گیت جس پہ دیوان قربان کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے۔ جسے اگر جناب محمد شفع شفا ؔ کی پرسوز آواز میں سنا جائے تو تمثیلات،شبہات اور مناظر کی دنیا… پردہ اسکرین… تیرنے لگتی ہے۔
؎ یور اوچ مس آسمانہ استاریان گنی نسینان ویریغی تہ لوڑاؤ
پوشی تہ حسنو روشتیو پروانہ نو بینیان انگارا پو لواؤ
نغمہ شرین کہ ا رو بوئیکرا گونی تہ نسوتے اولواؤ
نہ رنگا کھرور شیلی تہ قسمہ نہ باغا گلاب تہ غونہ وؤر
مہ حقہ کوئیت اسپرو ؤ غون بیکو وا کیچہ نو بوئے ژانوتے زور
تان غیچی کھوشی اچی ہردیا دوم گمبوریو زوخو دی متے دیور
دنیا تہ مثال ای نپوت استورؤ نہ ہون نہ اڑغس نہ تہ ژیلاؤ
شاہانا غرورا ہش بو سواری یو پرانی تہ سورؤ نو تھیاؤ
تان سپوکان موڑا کوری بو چھوتی تو شیلی رویان کوری اواؤ
ایک اور… کافر کُش… غزل جو منصور اور انثار نے گایا اور شہرت کی بلندیوں لے گئے خود کو بھی اور جناب شوکت کو بھی اس کے چند بول مجھے… درویشی… پہ ابھارتے ہیں اور میں خود کو… حضرت پیر بابا کے آستانے میں ملنگوں کے ساتھ بونیر میں پاتا ہوں۔
درد اوچے ستھم دی بو غیچھی گونیاں کم دی بو
آہ شینی تہ غم شینی تو کھیو مہ سُم باژیسان
پیر بابو آستانہ تہ گدا ای فقیر اوا
تان کھیو معرفتو کوم مہ سار مہ جا م ژانیسان
نور غیچھین غیچھیئے دیتی نیم کشو ا دان سورا
ناچیتیو باڑہ کو جام مہ سوار ا ہسیسان
نازو چے ادا مہ شوت ، مس موخو جلوا مہ شوت
چھیر گوڑہ تنہا مہ شوت چھوم ہوسی روئے مریسان
شان و چے شوکتؔ شیئار تاج اوچینن تختو سُم
پیچی گدائی کوسی اگر کی تو مینسان۔
جناب شوکت ؔ کے کئی مرثیے جن میں مرحوم شہزادہ فرہاد عزیز، مرحوم خالد بن ولیؔ اور دیگر ایسے لازوال گیت، غزل، نظم شامل ہیں جو ایک دیوان میں سماسکتے ہیں۔ کورونا… نے جہاں تمام حساس دوستوں کو…. دل کے قریب مگر فاصلے سے رکھا ہوا ہے۔ان میں شوکتؔ صاحب بھی جناب ڈاکڑ فیضیؔ صاحب کی طرح… ہاتھ نہیں ملاتے۔ اس لیے احباب اس سے زیادہ پڑھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ… کورونا سرکار… نے آپ لوگوں کو قطر میں رہنے بھی دیا ہے کہ نہیں… محبتوں اور نیک تمناؤں کے اظہار پر شکر گزار ہوں۔
٭٭٭٭٭