دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔میرے زیر تربیت بچے

Print Friendly, PDF & Email

کرونا نے زندگی کو ہلکان کرکے رکھ دیا ہے۔۔۔زندگی کی رونقیں مفقود ہو گئی ہیں۔خوف و ہراس بھی۔نئی نئی افتیں بھی سر اٹھا رہی ہیں۔اب سب پہ ظاہر ہوگیا ہے کہ زندگی دولت و ثروت کا نہیں عافیت کا نام ہے ساتھ میں صبرو شکر ہو تو دنیا جنت ارضی ہے۔۔۔میں ایک استاد ہو ں اور ایک باپ بھی۔۔۔ادھر میرے بچے ہیں ادھر میرے شاگرد ہیں۔۔زمانا کچھ بھی کہے کہ میں مفت خور ہوں کام چور ہوں لاپرواہ ہو ں جو بھی ہو ں لیکن دلوں کا بھید اللہ جانتا ہے۔میں نے اس وبا ء سے پہلے کم از کم اپنے ایک کروڑ بچوں کو گلی کوچوں کونوں کھدروں اور بازاروں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر سکول میں داخل کیا تھا۔۔یہ وہ بچے تھے کہ ان کے گھروں میں بمشکل چولہا جلتا تھا۔اگر وہ سکول نہ آتے تو والدیں کے ساتھ روزی روٹی کمانے نکلتے۔آن پڑھ رہتے۔ان کو کامیاب زندگی گزارنے کے گر نہ آتے وہ کانٹوں کے سیج پہ ساری زندگی گزار دیتے۔۔میں گورنمنٹ کا استاد ہوں یہ زمہ داری میرے سر تھا۔کسی پبلک سکول کے استاد کی یہ سر دردی نہیں تھی کہ ہر ایرے غیرے کو سکول میں داخل کرتا خواہ اس کی مقیاس ذہانت صفر ہو۔۔اس کا کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔۔اس کو میرٹ چاہیے۔۔۔بچہ خود پڑھے۔۔میری ان کوششوں کے باوجود بھی میرے دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر تھے۔میں ان کے لئے خواب دیکھ رہا تھا کہ کسی طرح وہ بھی تعلیم و تربیت کے دھارے میں داخل ہو جائیں۔کرونا آیا سکول بند ہوئی اور ہوتے رہے دن گنتے گنتے سکول کھلنے کی تاریخ آتی مگر مذید دن بڑھائی جاتے ابھی ساتواں مہینہ چل رہا ہے میرے ہاں سردیوں کی چھٹیاں تھیں صرف دس دن مارچ میں سکول کھلے پھر بند ہوئے۔۔۔میرے اپنے صوبے کے پی کے چالیس لاکھ بچے گھر پہ ہیں ان میں سے تیس فیصد ایسے ہیں جو پبلک سکولوں کے ہیں ان کے والدیں کو ان کی تعلیم و تربیت کی فکر ہوگی۔باقی بچے پھر سے یا تو محنت و مزدوری کرنے لگے ہیں یا ویسے پھر رہے ہیں ان کی تربیت کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہے۔قوم آن پڑھ ہو رہی ہے۔۔۔حکومت کو چاہیے تھا کہ سب سے پہلے اس مسلے پہ سوچتی۔انتظار کیا۔انتظار عذاب ہے۔حکومت کو سخت (SOPs) کے تحت کچھ کرنا چاہیے تھا۔۔۔والدین کی بے شک مرضی ہوتی کہ اپنے بچے کوسکول بھیجے یا نہ بھیجے۔۔۔استاد حاضر ہوتا جو آتا اس کو پڑھاتا۔۔
آج میں ایک کالج میں بچوں کے فیس بھرنے گیا۔متعلقہ سٹاف کے چہروں پہ ناگواری تھی۔۔فیس لیٹ ہوئے تھے۔میں نے دیمی انداز میں پوچھا کہ دوبچوں کے لیے کوئی رعایت تو نہیں ہوگی۔۔۔سٹاف نے کہا۔۔۔کوئی اصول تو ہمارا نہیں ہاں پرنسپل سے درخواست کر سکتے ہیں۔۔۔میں نے عرض کیا۔۔ کہا کہ اگر یہاں کے ضابطے میں یہ نہیں تو میں فلحال بھکاری بننا نہیں چاہتا۔میرے جیسے ہزاروں ہیں جن کے بچے گھروں میں آن پڑھ ہورہے ہیں ابھی حکومت تنخواہ دے رہی ہے۔۔تنخواہ بند کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اگر ایسا ہوا تو پھر ان آن پڑھوں کو کالج ہی سے اٹھا دونگا۔۔جب جان کے لالے پڑتے ہیں تو انسان مجبور محض ہے کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔اب گورنمنٹ کے اساتذہ کو محسن قوم سمجھنے لگا ہوں کہ وہ میرے بے ترتیب بچوں کی تربیت میں لگے ہوئے ہیں۔
مجھے احساس تک نہیں تھا کہ میرا بچہ صبح بستہ کندھے سے لٹکائے نکل رہا ہوتا اور ہر گھڑی اس کو سکول کی فکر دامن گیر رہتی یہ اصل میں تربیت تھی جو میرے محسن جن کو معاشرہ مفت خور استاد کہتا ہے اور حکومت ان پر احسان کرکے ”گورنمنٹ ملازم ” کہتی ہے۔۔۔استاد کے لیے ” ملازم ” لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔جن کے دست شفقت سے انسانیت کی تربیت ہوتی ہے وہ محسن ہو سکتے ہیں ملازم نہیں۔۔میرے زیر تربیت بچے اب اپنے استادکو بہت مس کر رہے ہیں۔ان کے والدیں بھی بے بس ہیں صرف یہ دعا کر سکتے ہیں۔۔۔یا اللہ اس وباء کو دنیا سے ختم کردے۔۔میرے سامنے میرے بچے وہ سلام کرنا بھول گئے ہیں۔وہ ناخن کاٹنا دانت صاف کرنا تختی کاپی لکھنا جوتوں کو بالش کرنا بھول گئے ہیں۔صبح سویرے آنکھیں ملتے ہوئے جاگنا دوڑ کر منہ ہاتھ دھو آنا اور جلد جلد ناشتہ کرنا بھول گئے ہیں۔۔ماوں کی وہ آواز ” بیٹا جلدی کرو اٹھو سکول کے لئے دیر ہو رہی ہے ” اب سنائی نہیں دیتی۔سڑکوں بازاروں میں صبح انسانیت کے ان پھولوں کی خوشبو کہیں نہیں آتی۔انسانیت اس چہل پہلی سے محروم ہو گئی ہے۔۔۔صبح قومی جھنڈے لہرانا اور سریلی أواز میں اللہ کے کلام کی تلاوت حمد نعت قومی ترانہ دعا اور قومی نغموں کی آوازیں مہینوں سے کہیں سے نہیں آ رہیں۔۔ان پاکیزہ لبوں سے نکلے ہوئے الفاظ۔۔۔پاک سر زمین شاد باد اصل میں دعا تھی نہیں سنائی دیتے۔۔۔۔۔ یعنی اصل میں صبح کی وہ رونقیں ختم ہوگئی ہیں۔۔میں استاد ہوں میرے زیرتربیت بچے میرے سامنے بے بس ہیں۔۔میں ان کے سامنے بے بس ہوں۔