چترال ٹاؤن میں پی ٹی آئی کو بھاری مینڈیٹ ملنے کے باوجود چترال شہر کے ساتھ یہ سرد مہری کیوں ہورہی ہے۔ پی پی پی چترال پریس کلب میں پرہجوم پریس کانفرنس

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمائندہ چترال میل) پاکستان پیپلز پارٹی چترال کے سینئر رہنماؤں انجینئر فضل ربی جان، امیراللہ خان، قاضی فیصل، محمد حکیم ایڈوکیٹ، عالم زیب ایڈوکیٹ، انیس الدین اور دوسروں نے چترال ٹاؤن میں پینے کے پانی کی شدید قلت پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ چترال شہر کا کربلا کا منظر پیش کرنا پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی ہے اور حکمران عوامی غیض وغضب کے لئے تیار رہیں یا مزیدوقت ضائع کئے بغیر گولین گول واٹر سپلائی پراجیکٹ کو بحال کرے جوکہ گزشتہ سال سیلاب برد ہوا تھا۔ بدھ کے روز چترال پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چترال ٹاؤن میں پانی کا مسئلہ پی پی پی کے دورحکومت میں حل ہوا تھا جس نے 45کروڑ روپے کی بھاری رقم خرچ کرکے گولین گول واٹر سپلائی پراجیکٹ مکمل کیا تھالیکن موجودہ حکومت کو دس عدد پائپ لگاکراس کو بحال کرنے کی توفیق نہیں ہوئی جوکہ سیلاب میں بہہ گئے تھے۔انہوں نے پی ٹی آئی کے ٹائیگروں سے سوال کیا کہ چترال ٹاؤن میں پی ٹی آئی کو بھاری مینڈیٹ ملنے کے باوجود چترال شہر کے ساتھ یہ سرد مہری کیوں ہورہی ہے اور چترال ٹاؤن کے لئے پانی کی فراہمی میں ہی پی پی پی کی کارکردگی سامنے ہے جس نے 45کروڑ روپے خرچ کی لیکن پی ٹی آئی ڈھائی لاکھ روپے یہاں نہ لگاسکی۔ انہوں نے کہاکہ آج ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی اپنی خراب کارکردگی کے باعث بروز کے گولدہ سے باہر نہیں نکل سکتا تو ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمن نوگرام میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں جوکہ عوام کا سامنا نہیں کرسکتے۔ پی پی پی کے رہنماؤں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے ایم پی اے وزیر زادہ کی طرف سے بونی اور گرم چشمہ روڈ کی فیڈرلائزیشن کا شوشہ چھوڑنے اور ان منصوبوں پر مسلم لیگ (ن) کے دور میں پیش رفت کو پس پشت ڈالنے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ فیڈرلائزیشن کا ڈرامہ رچاکر دراصل پی ٹی آئی حکومت اپنی ناکامی پر مٹی ڈالنا چاہتی ہے کیونکہ نواز شریف دور حکومت میں CDWPاور ایکنیک سے منظوری کے بعد ان دومنصوبوں کا بمبوریت روڈ سمیت ٹینڈر بھی ہونے والا تھا لیکن موجود ہ حکومت نے ان منصوبوں کو سر دخانے میں ڈال دیا۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ محمود خان اور وفاقی وزیر مراد سعید کی طرف سے سی پیک منصوبے کو سوات کی منتقل کرکے اسے کالام اور لاسپور (چترال کا آخری گاؤں) سے گزارنے کی سازش کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اس کے نتیجے میں چترال اور دیر کے چار اضلاع سی پیک منصوبے کے ثمرات سے یکسر محروم ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ چترال کے عوام اس گھناونی سازش کو کبھی کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ اس موقع پر چترال کے ہسپتالوں میں کورونا کی ٹیسٹنگ سروس نہ ہونے، ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے لئے حفاظتی سامان نہ ہونے اور احساس پروگرام کی امدادی رقم غریبوں کو نہ ملنے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے شندور روڈ کو بھی فوری طور پر ٹریفک کے لئے کھول دینے کا مطالبہ کیا۔