اسی(80) کی دہائی میں چترال اور چترال جیسے پسماندہ علاقوں میں غیر سرکاری تنظیموں کی صورت میں ترقیاتی کاموں آغاز ہوا اور واقعی میں ان پسماندہ علاقوں میں واضح تبدیلی آئی۔لوگ بیدار ہوئے۔۔عوام کو تنظیموں نے فعال کیا۔زندگی کے مختلف شعبوں میں واضح ترقی ہوئی۔راستے بنے،نہریں بنیں،غیرآباد آباد ہوگئے۔تعلیمی اداروں میں مختلف انداز سے تعلیمی اور تعمیری کام ہوئے۔معاشرے کی پسماندگی کے پیش نظر مختلف بے کار افراد کو کام پہ لگایا گیا۔۔ان کو روزگار مہیا کرکے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی اور کسی حد تک اس کے ثمرات ملے۔۔ان فعال تنظیموں میں پہلے اے کے آر ایس پی اور اس کے بعد ایس آرایس پی کا بڑا کردار رہا ہے۔۔۔ایس آر ایس پی مختلف سیکٹر میں کام کرتی ہے۔پسماندہ چترال کے پسماندہ ترین علاقوں کو روشنی دینے میں ایس آر ایس پی کا بڑا کردار ہے۔ایسے علاقے جہاں پر چھوٹا سابھی بجلی گھر بنانا ناممکنات میں سے ہووہاں ایس آر ایس پی کام شروع کرتی ہے اور ناممکن کو ممکن بناتی ہے۔۔۔اس جدوجہد میں لازم ہے اس تنظیم کے سی ای او جناب شہزادہ مسعود الملک کے خلوص اور عزم شامل ہے وہاں اس تنظیم کے سٹاف کی قربانیاں شامل ہیں۔پیسہ اپنی جگہ جدوجہد اپنی جگہ عوام کے ساتھ صبرو استقلال کے ساتھ کام کرنا اوران کو فعال بنانا اپنی جگہ لیکن ان سب کے پیچھے سی ای او صاحب اور اس کے اسٹاف کی پُرخلوص کوششیں لائق تحسین ہیں میں سب کا فرداًفرداً تعارف پیش نہیں کرسکتا اور نہ سب کا شکریہ ادا کرسکتا ہوں۔۔۔میرے سامنے تورکہو کے دور افتادہ علاقہ اُجنو کا بجلی گھر اور ایس آرایس پی کے ایک محنتی پُرخلوص اور سخت جان نوجوان محسن علی ہیں جو ایس آر ایس پی کے میری نظر میں مرکزی کردار ہیں اس لیے کہ وہ اپنی تنظیم کے انجینئروں ایس اوز، ڈی پی ایم اور سی ای او کے سرفخر سے بلند کرتے ہیں۔جہاں انجینئر نہیں پہنچ سکتا وہاں پر محسن کی رسائی ہوتی ہے۔جہاں ٹیکنیکل خرابی ہووہاں پر قرعہ فال محسن کے نام نکلتا ہے۔موسم خراب ہو رسائی ممکن نہ ہو گاڑیاں نہ ہوں پیدل جانا ہو تو محسن باچھیں چھڑاتا ہے بیگ اُٹھاتا ہے روانہ ہوتا ہے۔۔اس کا مقصد عوام کی مشکل حل کرنا اور اپنے ادارے کی سرخروئی ہے۔اس کے کام کے راستے میں راستوں کی مشکلات گرمی سردی جاڑا بارش سیلاب طوفان بھوک پیاس رکاؤٹ نہیں بنتے۔وہ بنجارہ آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔اس لیے کہ اس کو کام سے عشق ہے۔محسن کام سمجھتا ہے کام میں مہارت رکھتا بھی ہے اور تجسس بھی ہے کہ کام میں اختراع پیدا کروں،نئی دریافت ہو نیا طریقہ ہو اور کام اتنا پختہ ہوکہ پھر کبھی اس میں نقص نہ آئے۔محسن کو میں کبھی کیمرہ اُٹھائے دیکھا کرتا پھر کبھی بڑی بڑی مشینوں کو اس کے سامنے بے بس پایا۔یہ اس کی ہنروری ہے۔محسن ہنس مکھ اور خوش مزاج ہیں یہ کمال ہے ورنہ ہمارے ہنرور اپنے آپ کو ناہنجار کرکے پیش کرتے ہیں وہ پروٹوکول محسوس کرتے ہیں ان کو سرسر کہنا پڑتا ہے۔ان کی بات حکم ہوتا ہے۔ان کی رائے آخری ہوتی ہے مگر محسن میں پروفشنلزم۔۔پیشہ ورانہ صلاحیت۔۔ہے سب کی رائی کو اہمیت دیتا ہے سب کو لے کے چلتا ہے سب کو کام میں لگاتا ہے یہی اس کی عظمت ہے جوغیر ملکی ماہر ہنروروں میں پایا جاتا ہے۔میں نے اس بار تورکہو اُجنو کے بجلی گھر میں اس کو کام کرتے دیکھا تو میرے سامنے ایک زمہ دار قوم کے عظیم ہنرور موجودتھا میں ایس آر ایس پی کے آرپی ایم کا شکریہ ادا کرتا ہوں اُنہوں نے اس پسماندہ علاقے کی مشکلات کو محسوس کیا اور اس پر خصوصی توجہ دی۔اس داد رسی میں علاقے کے ایک نوجوان فیض الدیان کی قربانی مثالی ہے۔۔۔میں نے محسن کی پیشہ وارنہ خلوص کو بہت محسوس کیا اور اس وجہ سے اس کی محنت کو مثال کے طورپرپیش کرتا ہوں اور جہاں ایس آرایس پی ایسے اسٹاف کو فخر کے طورپر رکھے گی اور اس کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کرے گی۔محسن ایس آر ایس پی کے ”رستم زمان“ ہیں۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات