دادبیداد۔۔اناچ دشمن عناصر۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

نانبائیوں کی ہڑتال سے پشاور شہر میں روٹی کا جو بحران پیدا ہوا اس بحران نے بہت لو گوں کو ما ضی پرستی نو سٹلجیا (Nostelgia) میں مبتلا کردیا کیسا زمانہ تھا جب گندم کی پسائی گھر میں ہتھ چکی پر ہوتی تھی آٹا گھر میں گوند ھا جا تا تھا اور گھر ہی میں روٹی پکتی تھی پھر ہتھ چکی کا دور ختم ہوا گھر میں آٹا گوند ھنے اور روٹی پکانے کا کام رہ گیا پھر چشم فلک نے دیکھا کہ گھر میں کچھ بھی نہیں رہا تندور سے پکی پکائی تیار روٹی آنے لگی ہماری ماوں اور بہنوں،بیٹیوں نے ہمارے لئے ہاتھ کی بنی ہوئی بھینی بھینی خوشبو والی روٹی پکانا بند کردیا اب زمانہ ایسا آگیا ہے کہ تندور والوں نے ہڑتال کیا تو گھر میں غیر ارادی اور غیر اعلانیہ بھوک ہڑتال شروع ہوگئی ہمارے بزرگ پیر مسعود الواجد مرحوم کہا کرتے تھے کہ ہمارے ہاں صرف سماج دشمن عناصر ہی نہیں ہوتے بلکہ اناج دشمن عنا صر بھی پایے جاتے ہیں اناج دشمن عنا صر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو بیسیار خوری میں اناج کا بیڑہ غرق کرتے ہیں دوسرے وہ جو سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے اناج کے ذخیروں کا ستیاناس کردیتے ہیں اگر پیر صاحب کی بات مان لی جائے تو مو جودہ بحران دوسری قسم کے عنا صر نے ہم پر مسلط کی ہے پارلیمنٹ میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ حکومت نے پچھلے سال مشترکہ مفا دات کونسل کی منظوری کے بعد 4لاکھ ٹن اناج برآمد کی اب نئی فصل گوداموں تک آنے میں دو ماہ باقی ہیں اور حکومت 3لاکھ ٹن گندم درآمد کررہی ہے ہم نے گندم 29روپے کلو کے حساب سے غیر ملکیوں کو فروخت کی اپنے وطن کے لو گوں کو 70روپے کلو کے حساب سے گندم دے رہے ہیں سیا ست کو زندہ رکھنے اور اخبارات میں تصاویر چھپوانے کے لئے اس طرح کے مسائل کا ہو نا کسی بڑی نعمت کے برابر سمجھا جا تا ہے مگر عوام کے لئے ایسی باتیں بیزاری کا سبب بنتی ہیں کسی شاعر کا لا جواب مصرعہ ہے ”تجھے اٹکھیلیاں سو جھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں“ فارسی زبان میں گندم نما جو فروش کا مقولہ مشہور ہے یہ مقولہ اُس شخص یا گروہ کے بارے میں بو لا جاتا ہے جو اچھی چیز دکھا کر بیکار چیز فروخت کرنے کے لئے بد نام ہو دوغلی پا لیسی کے حوالے سے جا نا اور ما نا جا تا ہو اکثر اوقات یہ مقولہ تا جروں پر صادق آتا ہے تا ہم اس کا دائرہ اب تاجروں تک محدود نہیں رہا اب تو جعلی پیروں، دو نمبری عالموں اور ووٹ لیکر بھاگ جانے والے سیا ستدانوں پر بھی اس مقولے کا ٹھیک ٹھاک اطلاق ہو تا ہے چنانچہ اردو میں یہ مقولہ ایک سے مستعمل ہے گندم کا سب سے معتبر حوالہ ہمارے با باآدمؑ اور ان کی زوجہ بی بی حوا کو جنّت سے نکا لنے کے وا قعے میں بھی ملتا ہے یہ سنی سنائی کہانی ہے،یا اسرائیلیات سے ہمارے ہاں در آئی ہے یا جان بوجھ کر یہ بات گڑھ لی گئی آدم ؑ کا قصہ جہاں بھی آتا ہے کہا جا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت کے جس درخت کو چھکنے سے منع کیا تھا وہ گندم تھا خالانکہ گندم درخت پر نہیں اُگتا اگر یہ تشبیہہ ہے تو گندم کے دانے کی تشبیہہ بھی ہو سکتی ہے بہر حال اس مفروضے نے گندم کو خا صا بد نام کیا ہوا ہے ہمارے دوست سید شمس النّظر فاطمی کہتے ہیں کہ آج کل کے گندم چور، ذخیرہ اندوز اور سمگلر اپنا پورا زور بھی لگالیں تو گندم کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جتنا مفروضے نے پہنچا یاہے پا کستان کے میدانی علا قوں میں گندم ہی عذا کا بڑا حصہ ہوا کرتا ہے جبکہ پہاڑی علاقوں میں گندم کے اور بھی متبادل مو جود ہیں مثلاً جہاں سال میں دو فصلیں ہوتی ہیں وہاں گندم کے ساتھ جوار اور چاول کی پیدا وار وافر مقدار میں ہو تی ہے جہاں سال میں ایک فصل ہو تی ہے وہاں گندم کے ساتھ جوار، مٹر اور باجرہ بھی لگائی جاتی ہے پیداوار کے لحاظ سے جوار اور باجرہ بہت مقبول ہوا کرتے ہیں غذا کے طور پر مٹر کو بیحد پسند کیا جا تا ہے چنانچہ وہ لوگ گندم پر زیا دہ انحصار نہیں کرتے بلکہ ایسے علاقوں میں گندم کی اجارہ داری ختم ہو جا یا کرتی ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ گندم کے مو جودہ بحران کو آٹے کا بحران کہا گیا ہر جگہ آٹا بد نام ہوا وجہ یہ ہے کہ گندم کسانوں اور زمینداروں کے ہاتھوں سے پھسل کر سر مایہ داروں اور صنعتکاروں کے ہاتھوں میں چلا گیا انہوں نے بازار میں آٹا متعارف کرایا جس کی وجہ سے ہماری قدیمی پن چکیاں بند ہو گئیں اب پن چکیوں کی تصویر یں گوگل اور یو ٹیوب میں نو ادرات کے طور پر ہمیں دکھائی جاتی ہیں یہ سب کس کا کمال ہے؟یہ بازاری معیشت کی کارستا نی ہے جس کو انگریزی میں مار کیٹ اکا نو می کہا جا تا ہے اس اکا نو می نے ہماری ماوں بہنوں اور بیٹیوں سے خود انحصاری چھین لی اب وہ تندور، نان بائی اور روغنی روٹی پر نظر جمائے بیٹھی ہیں جس روز گھر میں آٹاآئے گا اور گھر میں روٹی پکائی جائیگی اُس روز گھر کی رونق بھی بحال ہو گی، بر کت بھی لوٹ آئیگی ؎
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو