خبر آئی ہے کہ آر می چیف کی مد ت ملا زمت میں تو سیع کے لئے پار لیمنٹ کا اجلا س بلا یا جا رہاہے اجلاس میں آ رمی ایکٹ کے اندر صدر مملکت بحیثیت سپریم کما نڈر مسلح افواج کے سر برا ہوں کی تقر ری کے بعد تو سیع کا لفظ شا مل کیا جا ئے گا اب تک صرف تقرری کا ذکر ہے تو سیع کا کوئی ذکر نہیں سپریم کورٹ نے اس قا نونی سقم کی نشان دہی کی ہے گو یا آر می چیف کی مدت ملا زمت میں تو سیع کے اہم معا ملے کو آئینی تر میم کے ذریعے پا رلیمنٹ میں زیر بحث لا یا جارہا ہے گو یا اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ پا رلیمنٹ سب سے با لا دست ادارہ ہے اس حوا لے سے فواد چوہدری کا بیان بھی اخبارات کی زینت بن چکا ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ پا کستان میں اداروں کے درمیان چار ٹر آف پار ٹنر شپ دستخط ہو نا چا ہئیے سیا سی حلقوں میں اور حکمرا ن جماعت کے اندر بھی فواد چو ہدری کے بیا نا ت کو سنجیدہ نہیں لیا جا تا اس کے با وجود وفا قی وزیر کی حیثیت سے ان کا بیان تو جہ کے لا ئق ہے در اصل جمہو ری حکومتوں کا یہ خا صہ ہے کہ ملک اور قوم کو در پیش ہر مسئلہ پا رلیمنٹ میں زیر بحث آتا ہے اس کے بعد اس کا فیصلہ کیا جا تا ہے وطن عزیز میں پا رلیمنٹ کی بے وقعتی اور بے تو قیری 1985ء میں شروع ہوئی جب جنرل ضیاء الحق نے غیرجماعتی،غیر سیاسی بنیادوں پر انتخا بات کروایاجس میں سیا سی جما عتوں کے معتبر قائدین نے بھی اس مضمون کا حلف نا مہ داخل کیا کہ میرا تعلق کسی سیا سی جما عت سے نہیں ہے اس کے بعد پارلیمنٹ کے اندرجنرل ضیاء الحق تما م ارا کین پار لیمنٹ کومسلم لیگ کے نام سے نئی سیا سی جما عت بنا نے کا حکم دیا حکم کی تعمیل ہوئی پار لیمنٹ کو ربڑ کی مہر بنا یا گیا آج کل مسلم لیگ کے جتنے دھڑے مختلف نا موں سے نظر آتے ہیں سب 1985ء والی پارلیمنٹ میں بننے والی مسلم لیگ کی نا خلف اولاد ہیں ایک پرانی فلم میں گیت کے بول اس طرح تھے ؎
اک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گر اکوئی وہاں گرا
1985ء کے بعد جمہوری حکومتوں میں بھی اور مار شل لاء کے ادوار میں بھی پارلیمنٹ کو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا آئین میں آٹھویں تر میم، ستر ھویں تر میم اور اٹھارویں تر میم با ہر سے ڈانڈا دکھا کر منظور کروا ئے گئے کیونکہ حکمران کا مفاد تر میم سے وا بستہ تھا اور حکمران کو خوش کرنے کے لئے تر میم نا گزیر تھی دسمبر 2014ء میں آر می پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد فو جی عدا لتوں کے قیام کا قانون پار لیمنٹ سے بزور شمشیر منظور کر وا یا گیا گو یا ہماری پار لیما نی تاریخ میں قا بل رشک روا یات کا فقدان ہی رہا ہے 2014کے دھر نے پر پار لیمنٹ میں جا ندار بحث ہوئی چوہدری نثار علی خان اور بیرسٹر اعتزاز احسن کے در میان نو ک جھونک بھی ہو تی رہی پار لیمنٹ قوم کے منتخب نما ئندوں کا فورم ہے قوم کی اجتما عی آواز بھی ہے اور قوم کا اجتما عی ضمیر بھی چنا نچہ پار لیمنٹ کی افا دیت اور اہمیت مسلم ہے اس میں دوسری رائے کی گنجا ئش نہیں یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ 6بار اعلیٰ فو جی قیا دت کو مدت ملا زمت میں تو سیع دی گئی لیکن قا نون میں اس کی گنجا ئش نہیں تھی کسی قا نون دان نے اس نکتے کی طرف اشارہ نہیں کیا کسی سینئیر بیورو کریٹ یا فو جی افیسر نے اس کی نشان دہی نہیں کی ساتویں آر می چیف کے لئے مدت ملا زمت میں تو سیع کا معا ملہ عدا لت میں لا یا گیا تو آر می ایکٹ منگوا یا گیا اس میں واضح ہوا کہ یہ کام وزیر اعظم کے دائرہ اختیار میں نہیں یہ صدر مملکت کا خصوصی استحقاق ہے جب متعلقہ قا نون کو کھول کر دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ صدر کو صرف آر می چیف کی تقرری کا حق دیا گیا ہے مدت ملا زمت میں تو سیع کا کوئی ذکر قا نون میں نہیں مو جودہ پار لیمنٹ قا نون سازی کے ذریعے اس کمی کو دور کرے تو آر می چیف کو تو سیع دینے کی راہ ہموار ہو جائیگی
تازہ ترین
- ہومچترال کی باشرافت ماحول کو بے شرافتی اور باحیا ماحول کو بے حیائی کی طرف لے جانے کی کوشش کی گئی ہے جوکہ ناقابل برداشت ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما ؤں کی پریس کانفرنس
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات