ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی میں ڈاکٹروں کے کمی کے خلاف خواتین کی احتجاج ۰۳، اکتوبر کی ڈیڈ لائن۔

Print Friendly, PDF & Email

بونی (ذاکر زخمی سے)ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی واحد سرکاری ہسپتال ہے جو اپر چترال کے جملہ مریضوں کو صحت کی سہولت پہنچانے کے لیے قائم ہے۔ لیکن بد قسمتی سے یہ ہسپتال اپنے مطلوبہ ہدف پورا کرنے میں بُری طرح ناکام رہاہے۔ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی میں کل ملاکے پانچ ڈاکٹرز موجود ہیں ان میں ایک خود کو ایم۔ایس کی کرسی تک محدود کیئے ہوئے ہیں۔ جبکہ ایک لیڈی ڈاکٹر جو ہمہ وقت ۴۲ گھنٹے مریضوں کے خدمت کے لیے حاضر ہے۔ با قی تین ڈاکٹر آٹھ آٹھ گھنٹے کی حساب سے اپنے ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مریضوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔خاص کر صبح کے وقت ہسپتال میں دور دراز علاقوں سے کم از کم ۰۵۲ سے ۰۰۳ تک کے مریض اتے ہیں۔ ان سب کی جلدی ہوتی ہے کہ کسی طرح ڈاکٹر سے چیک اپ کراکے جلد فاریع ہو جائے تاکہ یارخون،تورکھویا موڑکھو کے دور دراز کے گاڑی ان سے چھوٹ نہ جائے۔بصورتِ دیگر انہیں گھر جانے کے لیے اگلے دن کے انتظار کرنے پڑتے ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر بھی کوئی مشین نہیں وہ بھی انسان ہیں۔ اور انسانی جانوں کے مسلہ ہوتا ہے معمولی سے غفلت سے خطرناک نتائج بھی برامدہو سکتے ہے۔اس پریشانی کے الم میں کئی عرصے بیت گئے۔ علاقے کے لوگ مطالبہ کرکے، درخواست کرکے،منت سماجت کرکے تھک گئے۔ لیکن کوئی ٹھسِ مس نہیں ہوئے۔انتظامیہ کے نوٹس میں مسلہ سرِ فہرست ہے لیکن بے بس۔ عوامی نمائیندوں کو سب کچھ معلوم کوئی نتیجہ سامنے نہیں۔ صحت کے مسائل ائیے روز بڑھتے جاتے ہیں۔حکومتَ وقت کب سے دعویٰ کر رہی ہے۔کہ صحت کے شعبے میں بہت کچھ ہو چکا ہے بہت کچھ کر رہے ہیں لیکن عملی طورپر سب خالی خولی نعرے ہیں۔ اس سلسلے سب بے بس ہو کر ہار ماننے کو تیار تھے کہ علاقہ بونی کے باہمت خاتون سابق ضلعی کونسلر،سیاسی و سماجی خدمتگار حصول بیگم مسلے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے بونی کے خواتین کو یکجا کرکے احتجاجی جسلہ کرنے کا اغلان کیا۔ یاد رہے کہ اس قسم کے احتجاجی جلسہ میں عوامی مسلہ کو اجاگر کرنے کے لیے پہلی بار خواتین کو اگے انا پڑی جو کہ موجودہ حکومت کے لیے بھی شرم کا مقام ہے۔احتجاجی جلسہ کی قیادت کرتے ہوئے جب حصول بیگم ہسپتال پہنچی تو خواتین کے علاوہ کثیر تعداد میں علاقے عوام بھی ان کے ساتھ موجود تھی۔احتجاجی جلسہ سے مقررین نے خطاب کیے جن میں سابق چیر مین فضل الرحمٰن، شجاع لال۔ ظہیر الدین بابرؔ،محمد ہاشم،چیپس کے سربراہ رحمت علی جوہرؔ، اور بزرگ سیاسی و سماجی شخصیت دردنہ شاہ نے عوامی مسلہ کے لیے اواز اٹھانے پر خواتین اور خصوصاً حصول بیگم کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اس مسلے کے حل تک ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کی۔ احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق ڈسٹرکٹ ممبر حصول بیگم نے کہا۔کہ یہ کوئی میری ذاتی مسلہ ہر گیز نہیں البتہ کئی بار مریضوں کے ساتھ ہسپتال اتے ہوئے مجھے اس میں انے والوں کے مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔یہ اپر چترال کا واحد سرکاری ہسپتال ہے۔جہاں ہر علاقے سے مریض اس امید سے اتے ہیں کہ یہاں انہیں صحت کی بہتر سہولت میاثر ہو گی لیکن یہاں اکر وہ مشکلات سے دوچار ہونے کے بعد مایوسی کے عالم میں واپس لوٹتے ہیں۔آپ نے ۰۳ اکتوبر ۹۱۰۲؁ تک حکومت کو ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا کہ اگر ۰۳ اکتوبر تک مسلہ حل نہیں ہوا تو بھر پور انداز میں احتجاج کیا جائے گا جس میں دھرنے،ہڑتال،بھوک ہڑتال اور تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال شامل ہونگے اس کے تمام تر زمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر عائد ہوگی۔ بعد
میں احتجای جلسہ پُر امن طور پر منتشر ہوئے۔