صدا بصحرا۔۔سکو ل سے محروم بچے۔۔۔۔ڈا کٹر عنا یت اللہ فیضی
سکو ل سے محروم بچے
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے حکم دیا ہے کہ کوئی بچہ سکول سے با ہر نہ رہ جائے کوئی بچہ سکول سے محروم نہ ہو وزیر اعلیٰ کا حکم اقوام متحدہ کے تر قیا تی اہداف کو پورا کرنے کی طرف ایک قدم ہے 2020تک شرح خواندگی 100فیصد ہونی چا ہتے تھی اقوام متحدہ نے گوئٹے ما لا، نگا را گوا، افغا نستان اور پا کستان جیسے مما لک کے لئے جو نیا ہدف مقرر کیا ہے وہ 2030ہے پاکستان ان مما لک میں شا مل ہے جہاں شرح خواندگی 70فیصد بھی نہیں ہے خیبر پختونخوا میں مر دم شماری کے تازہ ترین اعداد شمار کی رو سے ایبٹ اباد،ہری پور اور مانسہرہ کے اضلاع میں شرح خواندگی 65اور68فیصد کے درمیان ہے 1998میں یہ شرح 60اور61فیصد کے درمیان تھی چترال کا ضلع چو تھے نمبر پر ہے جہاں 1998 ء میں شرح خواندگی 58فیصد تھی 2017ء میں 62فیصد ہو گئی ہے پشاور اور سوات کے اضلاع پانچویں نمبر کے بعد آتے ہیں شرح خواندگی بڑھا نے میں شراکت دار ادارے یعنی سر کاری زبان میں سٹیک ہولڈر 3بڑے طبقے ہیں پہلا طبقہ سر کاری سکو لوں کا نظام اور اس نظام سے وا بستہ طبقہ ہے دوسرا طبقہ دار لعلوم اور مدارس کا نظام یا اس نظام سے وا بستہ طبقہ ہے تیسرا شرا کت دار نجی شعبہ یا پرائیویٹ سیکٹر ہے خیبر پختونخوا میں گزشتہ 6سا لوں سے جو اقدامات اٹھا ئے گئے ہیں نیز مدا رس اور پرائیویٹ سیکٹر کو بند کرنے کے لئے جو ہتھکنڈے استعما ل کئے جا رہے ہیں وہ اقدا مات اور ہتھکنڈے تعلیم کی حو صلہ افزا ئی نہیں کر تے حو صلہ شکنی کرتے ہیں نیز سر کاری سکو لوں کے نظام میں جو دراڑیں ڈا ل دی گئی ہیں وہ بچوں کو سکول لانے کی حو صلہ شکنی کرنے کے مترا دف ہیں 1980ء کے عشرے میں جنرل فضل حق نے شرح خواندگی کو بڑھا نے کے لئے سرکاری شعبے میں دو اہم اقدا مات کئے تھے پرائمیری سکولو ں کے درمیان فا صلہ کم کرنے کی غر ض سے ایک کلو میٹر کے دائرے میں دو سکو لوں کی اجا زت دی گئی تھی تا کہ 5سال کا بچہ یا بچی آسانی سے سکول آجا سکے، جہاں پر ائمیری کے لئے آبادی کا فی نہیں وہاں مسا جد کے اندر مکتب سکول کھو لے گئے تھے 2016ء اور 2019ء کے درمیان 3سا لوں میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے ہر ضلع میں 254سے لیکر 600کی تعداد تک مکتب اور پرائمیری سکو لوں کو بند کر دیا اس عرض کے لئے محکمہ تعلیم، ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن کے حکام سے کوئی رپورٹ نہیں مانگی گئی کوئی تجویز نہیں مانگی گئی کوئی مشاورت نہیں ہوئی مقا می کمیو نیٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیاکے پی ہا وس اسلام اباد میں ایک میٹنگ کے اندر حکم دیا گیا کہ صو بے میں 2ہزار سر کاری سکو لوں کو بند کرو اس حکم پر عمل ہوا مکتب سکو ل اور قریبی پرائمیری سکو ل میں پڑھنے والے 20ہزار بچے اور بچیا ں پہاڑی اضلاع میں روزانہ 4کلو میٹر سے 8کلو میٹر تک پیدل چلنے کے قا بل نہیں تھیں ان کو سکو لوں سے نکا ل دیا گیا حکومت نے اس مد میں کروڑوں روپے بچا ئے شرح خواندگی میں اضا فے کا ہدف کھوٹا ہو ا مدارس میں پڑھنے والے طلباء اور طا لبات کی حو صلہ شکنی کے لئے خفیہ وا لوں کی مد د حا صل کی گئی ہر ماہ کسی نہ کسی مد رسے کو ہرا ساں کر نا اور مد رسے میں پڑھنے وا لے طلبہ و طالبات کے وا لدین کو ہرا سان کرنا روز کا معمول بن گیا شرح تعلیم میں اضا فے کا دوسر ا بڑا سسٹم متا ثر ہوا اور دھڑلے کے ساتھ متا ثر ہورہا ہے نجی شعبہ یا پرائیویٹ سیکٹرتعلیم کا تیسرا بڑا شراکت دار یا سٹیک ہو لڈر ہے اس کے خلاف مو جو دہ صو بائی حکومت نے کریک ڈا ون شروع کیا ہے اور سکو لوں کی تا لہ بندی ہو رہی ہے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ نے ما ہا نہ 5ہزار سے زیا دہ فیس لینے والے سکو لوں پر چند پا بند یاں لگانے کا فیصلہ دیا تھا مثلا ً سگے بہن بھا ئیوں کے لئے 20فیصد رعایت،طلباء اور طا لبات کی مخصوص تعداد کے لئے میرٹ سکا لر شپ، گر میوں کی چھٹیوں میں فیس کی وصو لی سکو ل کی حا ضری تک مو خر کرنا ان پا بندیوں میں شا مل تھے۔ خیبر پختونخوا میں پرائیویٹ سکولوں کا سٹم کے جی سے انٹر میڈیٹ تک تعلیمی بورڈ سے منسلک ہے ڈگری کی سطح پر یو نیورسٹی سے منسلک ہے قوا عد و ضوا بط بھی تعلیمی بورڈ اور یو نیورسٹی دیتی ہے نگر انی کا کا م بھی انہی کے پاس ہے وہی سکو لوں اور کا لجوں کو ریگو لیٹ کرتے ہیں لیکن صو بائی حکومت نے اس سسٹم کو نظر انداز کر کے متوا زی نظام بنا یا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے 5ہزار روپے سے زیا دہ فیس لینے والے سکو لوں کے حو ا لے سے محتاط فیصلے کو 250روپے سے لیکر 1600روپے تک ما ہا نہ فیس لینے وا لے سکو لوں اور کا لجوں پر مزید پا بند یوں کے ساتھ چسپان کر دیا اور ادارہ جا تی سسٹم لانے کی جگہ ایک غیر متعلقہ شخص کو نجی سکو لوں کے خلا ف کاروائی کا اختیار دیدیا گیا اُس کا تعلیمی شعبے میں کوئی تجربہ نہیں تھا اس وجہ سے اُس نے نجی تعلیمی اداروں کو تا لا لگا نا شروع کر دیا چنا نچہ پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی ادارے بحران کا شکار ہوئے اور اس بحران کے نتیجے میں بڑے پیما نے پر احتجا ج ہورہا ہے پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ اباد بنچ نے صو بائی حکومت کو غیر قا نونی اقدامات سے روکنے کا حکم جا ری کیا ہے تا ہم صو بائی حکومت نجی تعلیمی اداروں کو ہر حا لت میں بند کرنا چاہتی ہے خیبر پختونخوا میں ایک منتخب جمہوری حکومت قائم ہے وزیر اعلیٰ کا تعلق بھی پسماندہ پہا ڑی علا قے سے ہے ابتدارئی و ثا نوی تعلیم کے لئے وزیر اعلیٰ کا مشیر بھی ایک پسماندہ ضلع سے تعلق رکھتا ہے صو بائی وزیر اطلا عات کا تعلق بھی ایک پہاڑی علا قے سے ہے سب جا نتے ہیں کہ سوات، کو ہاٹ، شانگلہ، دیر، مانسہرہ اور چترال میں اگر کوئی نجی سکول 1600ورپے کی ما ہانہ فیس میں سکینڈا ئیر کی تعلیم دیتا ہے 250روپے ما ہانہ فیس میں کے جی سے پرائمیری تک اور 1000روپے کی ما ہانہ فیس میں آٹھویں سے میٹرک تک تعلیم دیتا ہے تو وہ شرح خواند گی بڑ ھا نے اور سکول سے محروم بچوں کو سکول تک لا نے میں مدد گار اور معا ون کا کر دار ادا کرتا ہے پہا ڑی علا قوں میں پرائیو یٹ سیکٹر 3طریقوں سے حکومت کی مدد کر رہا ہے 40فیصد بچوں اور بچیوں کو تعلیم تک رسائی (Access) میں مدد دیتا ہے جو بچے دور نہیں جا سکتے وہ قریبی پرائیویٹ سکول میں جا کر پڑھتے ہیں تعلیمی معیار کو بلند رکھنے میں بھی پرائیویٹ سیکٹر حکومت کا اہم معا ون ہے کمرہ جما عت میں طلباء /طالبات کی تعداد 20اور 25کے درمیان رکھ کر نجی شعبہ تلفظ، املا، اور تصورات کو اجا گر کرتا ہے سر کاری سکو لوں میں 6جما عتوں کو دو کمروں میں کھپا یا گیا ہے ہر جما عت میں 60سے 120تک بچے، بچیاں ہو تی ہیں جو استاد کی توجہ حا صل کرنے میں نا کام رہتی ہیں نیز کمرے کے ایک کونے میں اردو، دوسرے کونے میں اسلا میات، تیسرے کونے میں جنرل سائنس یا ریا ضی کا سبق ہو تا ہے جومعیار کو متا ثر کرتا ہے حکومت کے لئے اس سے بہتر بنیا دی ڈھا نچہ فراہم کرنا ممکن بھی نہیں انفراسڑ کچر کے اس مسئلے کو پرائیویٹ سیکٹر نے حل کیا ہو اہے اس وجہ سے 2003ء میں خیبر پختونخوا کے اندر متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر کو عمارتوں کی تعمیر کے لئے فرنٹیر ایجو کیشن فانڈیشن (FEF) کے ذریعے 10لاکھ سے لیکر ایک کروڑ روپے تک بلا سود قر ضو ں کا اجراء کیا تھا اس سہو لت سے فائدہ اٹھا کر پرائیویٹ سیکٹر نے بہتر عما ریتں مہیا کیں اورFEFکا قر ضہ ما نہ اقساط کی صورت میں لو ٹا رہے ہیں تعلیم دوست حکومت اور علم دشمن حکومت میں یہی فرق ہے جو لو گوں کو احتجا ج پر مجبور کر تا ہے پرائیویٹ سیکٹر نو جوا نوں کو روز کے مو اقع دینے میں بھی حکومت کی معا ونت کرتا ہے وزیر اعلیٰ محمود خان کے علم میں یہ ساری باتیں لائی گئی ہیں اس لئے انہوں نے حکم دیا ہے کہ کوئی بچہ سکول سے با ہر نہ رہ جائے کوئی بچہ سکول سے محروم نہ ہو اُمید ہے اپنے حکم پر عملدار آمد کے لئے وزیر اعلیٰ پرائیویٹ سیکٹر کی حو صلہ افزائی میں اکرم درانی اور امیر حیدر خان ہو تی سے بھی دو قدم آگے بڑ ھ کر اقدامات کرینگے اور PSRAکے غیر قانو نی اقدات کو ر کوا کر صوبے میں تعلیمی تر قی کے لئے ایک بار پھر ساز گار فضا قائم کرینگے