افراد کے ہاتھوں میں ہیاقوام کی تقدیر
ہر فرد ہیملت کے مقدر کا ستارہ
آپ کے وقت کی طنابیں میرے الفاظ کی کرنوں سے زیادہ آہم ہیں۔اور یہ ایسی مجلس ہے جہاں گفتارکے غازی نہیں بلکہ کردار کے غازی رونق افروز ہیں۔اور کردار کے اتنے سارے غازیوں کو یہاں یکجا کرنے والا بھی کردار کا غازی ہےRoseکے بانی و چیئرمین جناب ہدایت اللہ صاحب ایسی شخصیت ہیں جو روز پیدا نہیں ہوتے اورجب پیدا ہوتے ہیں تو روز ہاتھ میں لیکر آتے ہیں۔ہدایت بھائی نے اپنی جیب کو دفتربنایا ہے اور پاوں کو پہیئیلگا کر ایسا ادارہ قائم کیا جو علم کی دولت بھی تقسیم کرتا ہے۔بندگان خدا کی خد مت بھی کرتا ہے علامہ اقبال نے کہا ہے
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں،بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیا ر ہوگا
چترال ایسی جگہ ہیجہاں پھولوں سے پیا ر اورعلم سے محبت ہر پیدا ہونے والے بچیکو فطرت اسلام کی طر ح ود یعت ہوتی ہے۔چترال کا پہلا سی۔ایس۔پی افیسر سردار علی سردار امان میری نسل کے لوگوں کے لئیایسا رول ماڈل ہے۔جنہوں نے میٹرک کے بعد جزوقتی محنت اور کام کرکے اعلی تعلیم کے اخراجات پورے کیئے اور اعلی تعلیم کے بعد پاکستان میں مقابلے کا سب سے بڑا امتحان پاس کیاپوسٹل سروس میں آنے کے بعد انہوں نے چترال کے ہزاروں نو جوانوں کو یو نیورسٹی کی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے موا قع دیئے۔چترال کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہا ں کا باسی بھوکا مرے گا لیکن بھیک نہیں مانگے گا یہاں کے سکولوںاور کالجوں کے طلبائکی اکثریت گرمی اور سردی کی چھٹیوں میں گلگت،پشاور،اور اسلام آبادجاکر مزدوری کرکے اپنے تعلیمی اخراجات پوری کرتی ہے۔ چترال میں ایسی مثالیں بھی ہیں کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد ماوں اور بہنوں نے بھیڑ بکریاں پال کر،دستکاری کرکے بیٹوں اور بھائیوں کو یونیورسٹی تک پہنچایااور اعلی تعلیم سے آراستہ کیا ان میں سیکسی ایک نے بھی شیخ سعدی شیرازی کو نہیں پڑھا،تاہم ان کے قول پر عمل کیا۔
چوں شمع ازپیئے علم باید گداخت
کہ بے علم نتواں خدا را شناخت
علمکیتڑپاورمراکزعلمکیجستجوآجبھیچترالکیبیٹوںاوربیٹیوںکیدلوںمیںجاگزیںہیمگریہدورقیامتخیزبھیہے،پرآشوببھی۔آجکانوجواںجسدروازیپردستکدیتا ہے اسکوسبسیپہلیاسیایکسوالسیواسطہپڑتاہیکہزر،داری؟پیسہ ہے تہاڈے کو ل؟بیسویںصدیکینمائیندہشاعرزیارتخان زیرکنیچترالکیزبانکھوارمیںاپنیدورسییہیگلہکیاہے کہ
تہ ملنگ کیا خوشان نو آسوم زمانو سوم
لوہ پیسو تول کورونیاں دُردانو سوم
آپ کے در کا یہ درویش اپنے زمانے سیخوش نہیں کیونکہ انسان کی قدروقیمت کو سِکوں میں تولا جاتا ہیاس دور میں اعلی تعلیم بہت ہے مگر غریب اور نادار کی رسائی سے بہت دور ہے۔اس کا آسان علاج بڑیبڑے دفتر والوں کے پاس ہو یا نہ ہو،ROSEکے چیرمین ہدایت اللہ صاحب کے پاس ہے۔جس طرح مولانا قاسم نانوتوی نے ایک درخت کے سائے میں دو طالبعلوں کو پڑھانے سے دیوبند جیسے عظیم مدرسے کا آغاز کیا،مولانا محمدالیاس نے بنگلہ والی چھوٹی مسجد سے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی۔اس طرح بے سروسامانی کے عالم میں ROSEنے آنکھ کھولی،ہدایت اللہ بھائی نے کام کا اغاز کیا۔
میں آکیلے ہی چلاتھاجانب منزل
لوگ آتے رہے اور کارواں بنتا گیا
آج ROSEایک تناور اوربارآوردرخت بن چکا ہیتو اس کی آبیاری میں اسی کارواں کا ہاتھ ہے۔اس کا کوئی فنڈنہیں،کوئی بینک بیلنس نہیں۔ہدایت اللہ بھائی نے کسی یونیورسٹی کے حکام سے ملاقت کی۔ان کو دو یا تین مستحق طلباء وطالبات کے لئے سکالرشپ پر راضی کیا۔طالب علم کو یونیورسٹی میں داخلہ دلوایا۔کام کی ابتداۂوئی،یاکسی مخیر شخصیت یا فلاحی تنظیم کو چترال کیکسی ہونہار بچے یا بچی کے لئے سکالرشپ دینے پر امادہ کیا۔طالب علم کو بتایا کہ تمہارے نام پر چیک آئے گا،چیک آیا۔اور اعلی تعلیم کا وہ دروازہ کھل گیاجس کی چابی اس غریب کے پاس نہیں تھی۔اگر مجھےROSEکے بارے میں ایک جملہ کہنا پڑے تو میں کہوں گا کہ یہ ادارہ سورہ آل عمران کی آخری آیت کی عملی تفسیر ہے
اے ایمان والو صبرکرواور صبر کی تلقین کرولوگوں کے درمیاں رابطہ کاری سے کام لواور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں کامیابی نصیب ہو۔
حقیقتیہہیکہچترالکیہرایککمیونٹینےRoseکواپنایئت،Ownershipدیہے۔ بلاامتیازاپناادارہسمجھاہیہمامیدکرتیہیںکہاونرشپاوراپنایئتکومزیدفروغملیگا۔طلبائاورطالباتRoseکواپناسمجھتیرہیںگے،معاونین،سرپرستاورعطیہدینیوالیبھیاسیاپنایئتکااظہارکرتیرہیںگے۔مجھے یقین ہیکہ آپ کی حوصلہ افزائی اورسرپرستی کی بدولت یہ قافلہ آگے بڑھے گا اور منزل پر پہنچ کر ہی دم لے گاسفینہء برگ گل بنالے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگریہ دریا سے پار ہوگا