8
عورت اس جہاں کی سب سے خوبصورت مخلوق ہے،جس کے لئے بادشاہوں نے تاج وتخت چھوڑی ہے اورکئی جنگیں لڑی ہیں۔عورت صنف نازک ہونے کی حیثیت سے اسلام نے انھیں بعد ذمہ داریوں سے بھی محفوظ رکھنے کابھی اہتمام کیا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتاہے۔اس دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پرشہری اور دیہی خواتین کے کردار کی اہمیت کی ترجمانی کرکے شہری اور دیہی خواتین کے مسائل کواُجاگرکرناہے۔ عالمی سطح پر دیہی علاقوں میں خواتین کو درپیش چیلنجز اور ان کے کردار کی طرف توجہ کرانا ہے۔مگرہمارے ہاں یہ دن روزمرہ کی طرح چپ چاپ گزر جاتا ہے البتہ چند پڑھی لکھی خواتین اس دن کے حوالے مضامین وغیرہ لکھ کراپنی آوازبلندکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں عورت کی مظلومیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک شہر کی تعلیم یافتہ عورت کے مقابلے میں ایک دیہات میں بسنے والی عورت کو قانونی، معاشی و معاشرتی سہولیات میسر نہیں ہے۔ دیہات میں بسنے والی خواتین آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج میں جکڑی ہوئی ہیں۔ دیہی علاقوں میں بیشتر خواتین کھیتی باڑی سمیت دیگر کاموں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ دیہی معاشرے میں خواتین کے ساتھ امتیازی برتاوکیا جاتا ہے جس کی ایک مثال کھانے کے وقت گھرکے مرد حضرات کوپہلے کھانا دینا اورانکے بعد گھر کی خواتین کا کھانا کھاناہے۔ خواتین کی عالمی کے دن کے موقع پر معاشرے کویہ عہد کرنا چاہیئے کہ وہ انہیں انکا صحیح مقام اور پہچان دلانے میں انکی مدد کریں۔معاشرے اور خاندان کے ترقی میں خواتین کے کردار کی اہمیت کو سمجھیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں، اسلامی مملکت ہونے کے باوجود پاکستان میں خواتین بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے میں بھی ناکام ہیں۔پاکستان کا آئین اور قانون عورتوں کو پروقار،برابری اور محفوظ زندگی کا حق بھی دیتا ہے۔
خواتین جس طرح اپنے حقوق کے بارے میں ہوشیار رہی ہیں اسی طرح انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں بھی باخبر ہونا چاہئے، ناخواندہ عورتوں کو خواندگی سے بہرہ ور ہونا چاہئے جبکہ با علم خواتین کو اپنے علم کی روشنی سے اپنے ماحول کو روشن و منور کرنا چاہئے۔ خواتین کے عالمی دن کا بنیادی مقصد یہی ہے۔ کہ ہماری خواتین ماضی کی خواتین کی محنتوں اور قربانیوں کا ادراک کریں۔ ہمت بڑھائیں اور آنے والی خواتین کے لئے زندگی کی بہترین راہیں استوار کریں۔ آئین کے مطابق پاکستان میں مردوں اور خواتین کے حقوق مساوی ہیں لیکن معاشرے میں اس کی رعایت نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے خواتین ظلم و تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ حکومت خواتین کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے کی اجازت دی ہے۔پاکستان میں بے شمار تعلیم یافتہ خواتین مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے کر معاشرے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ پاکستان کے طبقاتی سماج میں عورت کومعاشی حقوق نہیں ملتے ہیں۔ ایک مزدور مرد بھی جو معاشی بدحالی کا شکار ہے وہ بھی اپنے گھر میں عورت کا حاکم ہوتا ہے اور اس کو کسی قسم کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں اور اس کا غصہ بھی بے چاری عورت پر نکلتا ہے۔جب چاہے اس کو تشد دکا نشانہ بناتا ہے اس لئے معاشرے میں مواقع فراہم کر نے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے خواتین کو عزت و انصاف کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔
چونکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کی ملازمت کو برا سمجھا جاتا ہے اورعورتوں کے لیے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پر عمل درآمد نہیں کیاجاتاہے۔ خواتین کے عالمی کے دن کے موقع پر معاشرے کویہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ انہیں انکا صحیح مقام اور پہچان دلانے میں انکی مدد کریں معاشرے اور خاندان کے ترقی میں خواتین کے کردار کی اہمیت کو سمجھیں۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات