چترال سینٹینل ماڈل ہائی سکول چترال کے آنر بورڈ پر پہلا نام دیکھ کر میں نے اپنے دوست فدا الرحمان سے پوچھا: یہ عظیم انسان کون ہوگا جس کا نام اس بورڈ کی زینت بنی ہے؟ تو جواب میں فدا نے کہا کہ یہ چترال کے قابل فخر فرزند, سابق ڈپٹی کمشنر چترال اور میرے دوست اور محسن میر سبحان الدین صاحب ہیں. میرے دل میں اس عظیم انسان سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی.
پھر اس سے کچھ دن بعد فدا ایک خوش لباس اور نفیس انسان سے بغلگیر ہوئے. مجھ سے بھی اس شخصیت نے مصافحہ کیا. فدا نے جب میرا تعارف کرایا تو خوش ہو کر ایک بار پھر مجھ سے بغلگیر ہوئے اور کہا:
So, we belong to the same family. I, too, have done Masters in English literature.
آپ سے ملنے اور نشست کی خواہش دل میں مچلنے لگی. ایک دن آپ اکیڈیمی تشریف لائے. چونکہ سائنس ایکزیبیشن تھئ اسلئے مصروفیت کی وجہ سے آپکو وقت نہیں دے سکا. آپ سے معذرت کی اور آپ کے لئے ایک کرسی لان میں رکھوایا. آپ نے خندہ پیشانی سے اسے قبول فرمایا اور حسب معمول اپنی کتاب لیکر مطالعہ میں مگن ہوگئے. اسکے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا. ہر دوسرے دن ملاقات ہوتی تھی اور آپکی گفتگو سے مستفید ہونے کا شرف حاصل ہوتا تھا.
ادب, فلسفہ, مذہب, کلچر اور انگریزی زبان پر وہ عبور حاصل تھا کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا. کسی بات پر اختلاف کرتے تو انتہائی خوبصورتی اور دلیل کے ساتھ مخالفت کرتے. آپکی بات تحمل سے سنتے اور بہت ہی نفاست اور اختصار کے ساتھ جواب دیتے. کوئی بھی کام کرتے برملا کرتے. منافقت اپکی شخصیت کے پاس سے ہی نہیں گزری تھی. شاید اپکی بے باکی ہی تھی جس کی وجہ سے آپ سب کی نظر میں کھٹکتے تھے.
پشاور جانے سے ایک دن پہلے آپ اکیڈمی تشریف لائے اور فدا سے کہا:
“فدا میری جان میں کل جا رہا ہوں اسلئے آپکو خدا حافظ کہنے آیا ہوں.”
اس دن تنزیل صاحب بھی اکیڈمی میں ہی تھے. تنزیل صاحب کی گزارش پر اس دن آپ کا کیریئر آپکی گفتگو کا مرکز رہا. آپ نے ماضی کے بہت سے تلخ حقائق سے پردہ فاش کیا. چونکہ آپ نے ہمیشہ غلط بات ماننے سے انکار کیا اسلئے اشرافیہ اور بیروکریسی کے اعلی عہدیداروں کی نظر میں کھٹکتے تھے. آخر کار تنگ آکر اس سسٹم کا حصہ رہنے کی بجائے استعفی دینے کو مقدم سمجھا. اصول پسندی اس حد تک تھی کہ نہ پینشن لیا اور نہ ہی کوئی اور مراعات لئے.
تنزیل صاحب نے آپ سے جب پوچھا کہ مذہب کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے, تو آپ نے کہا:
“میں ملا والے اسلام کو نہیں مانتا. ہاں میرا اسلام وہی ہے جس کی دعوت اللہ کے پیغمبر نے دی تھی. جہاں تک نماز کی بات ہے تو میں اللہ سے تنہائی اور یکسوئی میں ملاقات کرنا پسند کرتا ہوں. نماز کا مقصد اللہ سے رابطہ اور اللہ کے حضور حاضری ہے. اسلئے تہجد کے وقت اللہ سے جو رابطہ ہوتا ہے وہی اصل ہے. باقی سب دکھاوا ہے. میں نے اللہ سے جو مانگا ہے اللہ نے ہمیشہ عطا کیا ہے. کبھی بھی مجھے اللہ سے کوئی التجا دوسری بار کرنا یاد نہیں.”
آپکے اندر جو راز چھپے پوئے تھے وہ تاریخ میں انتہائی اہمیت کے حامل تھے. اس دن ہم نے آپ سے ایک گزارش کی کہ کیوں نہ آپ ان باتوں کو ایک یادداشت کی صورت میں قلم بند کریں. کچھ دیر بعد سوچ کے آپ نے کہا:
“لکھنے کے معاملے میں میں کافی سست ہوں. اسکی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ میری واپسی پر آپ میرے لئے ایک اچھے سیکرٹری کا بندوبست کر دیں جو لکھنے والا کام سنبھالنے کے قابل ہو.”
اس کے بعد جاتے ہوئے آپ نے ہماری گزارش سردیوں کے سیشن میں اکیڈمی میں انگریزی کی ایک کلاس لینے کا وعدہ کیا. فدا نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ سر اس بار آپ اور احتشام ایک ساتھ انگریزی بڑھائیں گے. آپ نے میری طرف دیکھا اور کہا:
“Sure, we will, and we’ll make a good company, gentleman.”
آپکا یہ جملہ میرے لئے کسی compliment سے کم نہ تھا. مجھے ہمیشہ اس بات پر فخر رہے گا کہ میری زندگی کے چند یادگار لمحات چترال کے اس عظیم اور قابل فخر سپوت کے ساتھ گزری ہیں.
آپ کے ساتھ گزارے وقت اور آپ سے کی ہوئی گفتگو اور آپکی باتوں سے جو میں نے سمجھا وہ یہ ہیں:
پہلی بات یہ کہ آپ نے کبھی کسی بھی غلط بات پر کمپرومائز نہیں کیا. یہاں تک کہ اپنا کیرئر کی بھی پرواہ نہیں کی.
دوسری بات یہ کہ میر سبحان الدین صاحب ایک صوفی منش انسان تھے. یعنی کہ آپ کا اللہ سے تعلق اور اللہ پر ایمان اور یقین کامل اور مثالی تھا.
تیسری بات یہ کہ کسی بھی انسان کی کامیابی اور صداقت کو ماپنے کا ایک پیمانہ اولاد کی کامیابی کو بھی تصور کیا جاتا ہے. آپکی اولاد کی کامیابی آپکی صداقت اور راست بازی کی ایک واضح دلیل ہے.
اس دن رخصت ہوتے وقت ایک ہفتہ بعد واپس آنے کا وعدہ کر کے ہم سے رخصت ہوئے. ہائے, کسے معلوم تھا کہ اس دن ہم آخری بار مل رہے ہیں!
Attachments area