دادبیداد۔۔ہیرو سے زیروتک۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

علامہ خادم حسین رضوی کی گرفتاری کو اب ہفتے سے زیادہ گذر چکا ہے گرفتاری کے دن تک خادم رضوی کا خیا ل تھا کہ علامہ بنا یا گیا ہوں مجھے کو ئی نہیں پکڑ سکتا مگر جس دن پکڑا گیا اس دن پتہ چلا کہ جو علا مہ بنوا تا ہے وہ اُس کو علامہ کے مقام سے ہٹا بھی سکتا ہے بعض مقامات سے ایسی خبریں اخبارات میں گر دش کر رہی ہیں کہ تحریک لبیک کے سابق ہمدردوں نے تحریک سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے خانقاہوں سے بھی اظہار لا تعلقی کااعلان کیا گیا ہے ثر وت اعجا ز قادری سمیت اہم رہنماؤں نے بھی لا تعلقی ظاہر کی ہے لبرل یا روشن خیا ل اور سیکولر کہلانے والے طبقے اس کو مذہبی سیاست کا زوال قرار دیتے ہیں مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دینی جماعتوں کی جو سیا سی جد و جہد تاریخی لحاظ سے کئی صدیوں اور عشروں سے جاری ہے اس کو کبھی زوال نہیں آئے گا یہ امام غزالی،ابن تیمیہ،شیخ احمد سر ہندی،شاہ ولی اللہ دہلوی اور دیگر اکا بر کی محنت کا تسلسل ہے جو جاری رہے گا خادم حسین رضوی کے پاس کوئی تاریخی تسلسل نہیں تھا اُس کو بلبلے کی طرح منظر عام پر لایا گیا تھا بلبلے کوزوال آگیا یہ دینی جماعتوں کا زوال یا مذہبی سیاست کا زوال ہر گز نہیں اس سے پہلے طا ہر القادری کو بھی شیخ الاسلام کا خطاب دے کر لا یا گیا تھا تھوڑے ہی عر صے میں اُس کا پول کھل گیا اور غبارے سے ہوا نکل گئی ملی مسلم لیگ بھی اس طر یقے سے لائی گئی تھی وہ بھی لانے والوں کو پیاری ہو گئی آئندہ او ر بھی ایسے کر دار لائے جائیں گے جو تھوڑی دیر ڈرامہ رچا کرمنظر سے اس طر ح غائب ہوجائیں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ حقیقت یہ ہے کہ سیاست کا میدان بہت خارزار میدا ن ہے اس میدان میں کھمبیوں کی طر ح اُگنے والی فصلی نبا تات لمبی عمر نہیں پاتے اُن کی جڑیں نہیں ہو تیں شاخین جلدی مر جھاجاتی ہیں گملوں میں لگے ہوئے پھول زمین کے اندر پیوست نہیں ہو تے اُن کا رشتہ وطن کی مٹی سے گہرانہیں ہو تا گملے کے پیندے تک اُن کا محور ہو تا ہے ایسے فصلی بٹیروں کے لئے پشتو کے صوفی شاعر امیر حمزہ خان شنواری نے صنم تر اشی اور بت گری کی ترا کیب استعمال کی ہے اُن کی پشتو نظم ” لٹون” اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے اور کلا سیکیت کا درجہ رکھتی ہے لٹون کا اردو ترجمہ ” تلاش” ہے نظم کی بندکا اردو ترجمہ یوں کیا گیا ہے
روز نئے صنم تراشتا ہوں
تراشتا ہوں،پو جتاہوں
ہوتے ہیں صنم جب پرانے
توڑ دیتا ہوں
روز نئے صنم تراشتا ہوں
اس فن صنم تراشی میں ہم نے غضب کے صنم تراشے ایک زمانہ تھا جب ہم نے بھٹو کے نام سے ایک صنم تراشا تھا قدر ت اللہ شباب لکھتے ہیں کہ سکندر مر زا نے ایک نو جواں وکیل کو ایوان صدر کی لا ئبریری میں مہمان بنا کے رکھا تاکید ہو ئی کہ مہمان کی خوب خاطر مدارات کی جائے مہماں ذولفقار علی بھٹو تھا جو بعد میں وزیر خارجہ بنا بھر اُس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا یہاں تک کہ وہ میزبانوں کی نظروں سے گر کیا اور تختہ دار پر جھو ل گیاپھر جو نیا صنم تراشا گیا اُس کا نام الطا ف احسین تھا الطاف حسین کی پو جا پاٹ کا عر صہ بھی کم و بیش اتنا ہی تھا جتنا بھٹو کی پو جا پا ٹ کا عر صہ تھا پھر خدا کا کر نا ایسا ہوا کہ مفا دات ٹکراگئے صنم تراشوں نے الطا ف حسین کو آسماں سے زمین پر دے ما را الطا ف حسین کے ساتھ ہی نواز شریف نام کا صنم بھی تراشا گیا تھا اُس کو لمبی زندگی دیکر دیرتک پو جا پاٹ ہو ئی پھر اُس کو توڑنے کا دن آیا تو سب نے دیکھا کہ جن لوگوں نے اُسے تراشا تھا وہی لو گ کلہاڑیاں لیکر اُس کو توڑ رہے تھے اور ٹو ٹا ہو نواز شریف بُت بنا کھڑا تھا آذرکے بت کدے میں جو نیا صنم تیا ر ہوا اُس کا نام خادم حسین رضوی تھا یہ بھی صنم تراشوں کے فن کا حسین شاہکار تھا ٹانگو ں سے لنگڑا مگر زبان کا آتش اور اُسکی زبان کے شعلے دور دور تک آگ پھنکنتے تھے طا ہر القادری عام لغت میں ڈرامہ بازی کر تا تھا خادم حسین رضوی کی لغت بھی خا ص تھی اُس کے ذخیرہ الفا ظ بیشتر تراکیب اردو، فارسی اور پنجابی کی کسی بھی لغت میں نہیں ملتے تھے گالی دے کر اُ س کو اتنی طمانیت اور مسر ت ہو تی تھی جیسے اُسنے ذکر اور تسبیح کے ور د سے مشا م جاں کو عطر بار کیا ہو اُن کی چمکتی ہوئی سفید داڑھی پر گالیوں کا اتنا غبا جمع ہوا کہ اُن کی داڑہی ہی پہچانی نہیں جاتی تھی اُن کو منظر سے ہٹا یا گیا تو بہت سے لوگوں کو تعجب ہوا جبکہ بہت سے لوگوں نے کہا ”اس طر ح تو ہو تا ہے اس طر ح کے کاموں میں“وقت کی نبض کو پر کھنے اور پہچاننے میں اُن سے اجتہادی غلطی ہوئی در اصل اکتوبر 2017 اور اکتو بر 2018 کا فر ق ان کی سمجھ میں نہیں آیا ایک سال پہلے شا ن رسالت کے لئے دھر نا دینا ملک کی عظیم خدمت کے مترادف تھا جبکہ اکتو بر 2018 میں شا ن رسالت کے لئے دھر نا دینا وطن سے غداری کے زمرے میں آتا تھا اتنا معمولی سا فر ق اُن کی سمجھ میں نہیں آیا جس ر فتا ر سے بندہ زیروسے ہیرو بننے تک کا سفر کر ے گا اُس سے دگنی رفتا ر سے ہیرو سے زیرو بننے کا فاصلہ طے کر ے گا اور یہ سلسلہ اُ س وقت تک چلتا رہے گا جب تک صنم تراش نئے نئے صنم تراشتے رہیں گے