رحلتِ رجلِ عظیم۔ آہ حاجی عبد الوہاب۔۔ تحریر۔۔ ارشاد اللہ شاد

Print Friendly, PDF & Email

ایک عظیم انقلابی فرد جو اپنی ذات میں مکمل انجمن تھا۔ جس کے بیانات محبت الٰہی کا عملی نمونہ تھے۔ جس کی زندگی شمع ھدایت کی رکھوالی میں گزری۔ سستی اور کاھلی جس سے کوسوں دور رھی۔
دعوتِ الی اللہ جس کی زندگی کا مقصدِ اول رھا۔ عقیدہ توحید الٰہی اور پیغامِ رسالت مآب کی اشاعت و ترویج کا مشن جس کی نس نس میں سمایا رہا۔ عقیدہ ختمِ نبوت کا غلغلہ اور اصحابِ رسول کے مبارک تذکرے جس کے نصب العین کا خاصہ رھے۔ زندگی جس کی اللہ تعالی کی عظمت و کبریائی بیان کرتے کرتے گزری۔ کئی گم کردہ راھوں نے جس کے دامن میں موجود توحید کے موتیوں سے ضیاء پائی۔ کئی بے نمازی جس کی دعوت پر اپنی جبینوں کو سجدوں سے منور کرتے دیکھے گۓ۔ کئی نافرمان اور رسواءِ زمانہ لوگ جس کی دعوت پر لبیک کہتے ھوۓ عزت و شرف کے حقدار ٹھہرے۔ امت کی زبوں حالی کا غم جس کے سینے میں ھانڈی کی طرح کَھولتا رھا۔ جو زندگی بھر انسانوں کو اپنے خالق و مالک اللہ سے ملانے کا فریضہ سر انجام دیتا رھا۔
نہ جانے اور کیا کیا مبارک کمالات و اوصاف اس کے ماتھے کا جھومر رھے۔
اتنا مبارک و معظم انسان آج جب بارگاہ رب العالمین میں حاضر ھوا ھوگا تو میرے سوھنے رب تعالی نے اپنی شانِ کریمی کے ساتھ اپنے اس محبوب دوست کا کیسا عظیم الشان استقبال فرمایا ھوگا۔ نہ جانے کتنے حور و غلماں خوشی و مسرت سے جھوم رھے ھونگے۔ جنت کی کس قدر آرائش و زیبائش کی گئی ھوگی۔ انبیاء و رسل صحابہ و اھل بیت اور علماء و صلحاء کی مطہر و معطر محافل میں اس عظیم داعی کی موجودگی کتنی پیاری لگ رھی ھوگی۔
اللہ اللہ آج فرشتوں کی خوشی کا بھی کیا سماں ھوگا۔ خود ذاتِ باری تعالی اپنے اس بندے پر مزید کس طرح احسانات کی بارش فرما رھے ھونگے۔
میری دعا ھے کہ اللہ تعالی اس عظیم داعی الی اللہ کے درجات کو مزید بلندی عطا فرماۓ اور امت کو ان کے بہترین نعم البدل سے بھی نوازے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین۔