دھڑکنوں کی زبان۔۔ اس غیرت ناہید کی۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

اس کو پھر مجھ پہ غصہ آیا۔۔اس نے پھر طنزاً میری اردو کو اچھی کہی۔۔میری کیا حیثیت تھی۔۔۔وہ میری میم تھی۔۔مجھے شرمندگی ہوئی اور احترام کے دامن میں پھر سے چھید پڑگئے۔۔مجھے اپنی نالایقی پہ کڑنا پڑا۔۔پھر افسوس ہوا کہ میں نے اردو کی حمایت کیوں کی۔۔اردو میرے لئے ایک شناخت کی حیثیت رکھتی ہے۔۔میرے سامنے بڑے بڑے لوگ گذر ے ہیں جن کو انگریزی بہت اچھی طرح آتی تھی ان کو بھی اردو سے محبت تھی۔۔مختار مسعود آر سی ڈی کا ڈائریکٹر جنرل تھا اس کی تحریروں میں ایک لفظ انگریزی کا نہیں ملتا۔۔محسن احسان انگریزی ادب کے استاد تھے۔۔۔مگر۔۔
”لطف نگاہ دوست نے وقت کا رخ بدل دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبح فراق تیرگی شام وصال روشنی۔۔۔یہ اس کا شعر ہے۔۔۔۔ مگر آج کل کے تعلیم یافتہ لوگ میرے سامنے بڑے فخر سے کہتے ہیں۔۔”مجھے اردو نہیں آتی“۔۔۔اور بڑے فخر سے کہتے ہیں۔۔۔مجھے انگریزی آتی ہے۔۔یہی اردو جس قوم کی قومی زبان ہے اس نے اپنے آئین میں لکھا کہ ”اردو ہماری قومی زبان ہو گی“ لیکن اس جملے کو انگریزی میں لکھا۔۔اردو زبان سے غلامی کی بو نہیں آتی لیکن اس قوم سے غلامی کی بو آتی ہے۔۔دنیا کی کوئی آزاد قو م بھی اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کی پرواہ نہیں کرتی۔۔فرانسسی فرنچ بولتے ہیں۔ڈچ قوم ڈچ بولتی ہے۔جر من جر منی بولتے ہیں ۔۔۔چین میں چینی بولی جاتی ہے۔۔ان میں سے کوئی بھی اس بات پہ فخر نہیں کرتا کہ ”مجھے فرنچ نہیں آتی“۔۔ہم عجیب ہیں۔۔ہم بہت عجیب ہیں۔۔ اس قوم کے اساتذہ کہتے ہیں کہ ہماری اردو کمزور ہے۔۔ استادمغنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہتاہے کہ۔۔”مجھے کا، کے،کی کا پتہ نہیں“۔۔۔۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ استاد کو اپنے ”ان پڑھ“ ہونے پہ فخر ہے۔۔وہ انگریزی میں مہارت حاصل نہیں کرسکتا اس کی اردو کمزور ہے خود بتائے کہ وہ کس مقام پہ ہے۔۔ہمارے بڑے تعلیمی اداروں میں اردو بولنے پہ بچوں کو جرمانہ کیا جاتا ہے۔۔آگے یہ بچوں کی مجبوری ہے کہ ان کا مستقبل انگریزی سے وابستہ ہے۔۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان دنیا کی قوموں کے سامنے قومی لباس میں تشریف لے گئے اس پہ بہت پیار آیا۔۔اب اگر وہاں جاکر اپنی قومی زبان اردو میں بولے اور کہدے کہ۔۔”میں ایک آزاد قوم کا وزیر اعظم ہوں میری قومی زبان ہے“۔۔اس پہ اور پیار آئے گا۔۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ انسان جس تہذیب سے،جس قوم سے اور جس فرد سے متاثر ہو جائے تو اس جیسا ہونے کی کوشش کرتا ہے۔۔پہلی بات یہ ہے کہ اس کی صورت پہ اپنی شخصیت کو ڈھانے کی کوشش کرتا ہے۔۔ پھر آگے اس جیسا کام کرنے لگتا ہے۔۔ہم مغرب کو اپنا ایڈئیل مانتے ہیں۔۔ مگر ابھی لباس اور زبان کی نقل سے آگے نہیں بڑھے ہیں۔دوسری قومیں ان کی نقل کرنے کی بجائے دوسرے میدان میں ان سے آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔۔بلکہ ان کے دوبدو ہیں۔ ماننے کی بات ہے کہ انگریزی ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔۔ بین القوامی زبان ہے۔۔لیکن یہی ٹیکنالوجی دوسری قوموں کے پاس بھی ہے۔ہمیں ٹیکنالوجی میں ترقی کرنی ہے۔۔نہ کہ صرف انگریزی سیکھنے سے جہاز بنایا پھر اڑایا جاسکتا ہے۔۔ہماری کم مائیگی ہے کہ ہمارے بڑے اور ہمارے تعلیم یافتہ یہ ہم پہ مسلط کرنے جا رہے ہیں۔محمد علی جوہر وہ ہستی تھے کہ اکسفورڈ کے گریجویٹ تھے اور انگریز اپنی انگریزی ٹھیک کرنے ان کے پاس لاتے۔۔اس نے اپنی امی کے سامنے صرف ایک لفظ انگریزی کا بولا تو ماں نے ٹوک کر کہا ”اپنی شناخت مٹ کھو آپ کی اپنی زبان ہے۔۔ہمارے ملک کی عدالت عالیہ نے اردو کو رائج کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تو بڑے بڑوں نے اس کی مخالفت کی۔۔ہمارے محکمے کے بڑوں کے عہدے انگریزی میں۔۔صوبائی ناظم تعلیم کو ہم ”پرونشل ڈایریکٹر اف ایجوکیشن“کہتے ہیں۔۔ضلعی ناظم تعلیم کو ”ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر“کہتے ہیں۔صدر معلم کو”پرنسپل“کہتے ہیں۔جناب یا صاحب کو”سر“طالب علم کو ”سٹوڈنٹ“ یہاں تک کہ ہم اپنے گھر کے حصوں کو انگریزی میں نام دیتے ہیں۔ہمارے روزمرہ کی کتنی چیزیں ہیں جن کا اردو نام ہم بھول گئے ہیں۔۔ہماری غیرت کا تقاضا ہے کہ اپنی قومی زبان اپنی شناخت کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں۔۔کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔۔انگریزی بولنا ایک فیشن بن گئی ہے۔۔۔ اگر بڑے کسی فیشن کو اپنائیں گے تو وہ فیشن ترقی کرتی ہے۔ہمارا گلہ بھی بڑوں سے ہے۔۔میری میم کی بات درست ہے کہ میری بات اس کو ناگوار گذری۔۔ مگر میری بات بھی درست ہے کہ جس ملک کی فضا ء میں میری میم سانس لیتی ہیں۔۔ جس ملک کے گھاٹ سے پانی پیتی ہیں۔۔ جس ملک کے پھولوں کی خوشبو سونگتی ہیں۔۔جس ملک کے لذیذ پھل کھاتی ہیں۔۔جس ملک کی مٹی سے اس کی خمیر بنی ہیں۔۔جس ملک کی مٹی میں پھر سو جائیں گی۔۔ اس کو اس ملک کی قومی زبان کی قدر کرنی چاہیے۔میری میم بہت قابل احترام ہیں۔اس کی انگریزی اس کی طرح قابل ستائش ہے۔۔میری اردو میری طرح بُری ہوگی۔۔ جو اسکو بھاتی نہیں۔۔۔میری میم اور اردو میری شناخت ہیں۔۔یہ کمال کی تضاد ہے۔۔فیصلہ محفوظ رکھیں۔۔