9نومبریوم ولادت شاعرمشرق علامہ محمداقبال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

Print Friendly, PDF & Email

دعاتودلسے مانگی جاتی ہے،زبان سے نہیں اے اقبال
قبول تواس کی بھی ہوتی ہے،جس کی زبان نہیں ہوتی
اقبالؔ
زندگی انسان کی اک دم کے سواکچھ بھی نہیں دم ہواکی موج ہے،دم کے سواکچھ بھی نہیں
گل، تبسم کہہ رہاتھا زندگانی کو،مگر شمع بولی گریہ غم کے سوا کچھ بھی نہیں
رازہستی رازہے جب تک کوئی محرم نہ ہو کھل گیاجس دم تومحرم کے سواکچھ بھی نہیں
زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی کیاحرم کاتحفہ زمزم کے سواکچھ بھی نہیں
اقبالؔ
مفکرپاکستان،شاعرمشرق ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کا یوم ولادت ہرسال ملک بھرمیں جوش خروش سے منایاجارہاہے۔ہرسال 9نومبرکومنتخب نمائندے مزاراقبال پرپھول چڑھاکرفاتحہ خوانی کرتے ہیں اورپاکستان آرمی کے چاق وچوبند دستے گارڈزاف انرزپیش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف علمی و ادبی اور ثقافتی تنظیموں کی طرف سے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتاہے جن میں شاعر مشرق کی شخصیت، ان کے فکرو فلسفہ اور ان کی تعلیمات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔اور شاعر مشرق کی قومی خدمات پر بھرپور خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہرتقدیرسے پہلے
خدابندے سے خودپوچھے بتاتیری رضاکیاہے
اقبالؔ
علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔شاعر مشرق 1905 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور قانون کی ڈگری حاصل کی، یہاں سے آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔علامہ اقبال نے فارسی زبان میں کافی شعر کہے ہیں اور وہ اقبال لاہوری کے نام سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔علامہ اقبال شعروشاعری کے ساتھ ساتھ وکالت بھی کرتے رہے۔
کی محمد سے وفاتونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں
اقبالؔ
پاکستان کی نئی نسل بھی اقبال کی احترام آدمیت کی سوچ کو سراہتی ہے۔ اقبال قوم کو خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں اترنے پر ابھارتے ہیں وہ اسلامی دنیا میں روحانی جمہوریت کا نظام رائج کرنے کے داعی تھے۔ علامہ اقبال کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں کوغفلت سے بیدار کرکے نئی منزلوں کا پتہ دیا، ان کی شاعری روایتی انداز و بیاں سے یکسر مختلف تھی کیونکہ ان کا مقصدبالکل جدا تھا۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی جو تحریکِ آزادی میں بے انتہا کارگر ثابت ہوئی۔
کلامِ اقبال دنیا کے ہر حصے میں بڑی عقیدت کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ لیکن افسوس کہ آج یہ عالم ہے کہ قوم کو آگے بڑھنے اور خودی کا درس دینے والے تصور پاکستان کے خالق کا اپنا مزار اپنے ہی لوگوں کے لیے شجر ممنوعہ بن چکا ہے جو یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے۔
تمنادردل کی ہو توکر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتایہ گوہربادشاہوں کے خزانوں میں
اقبالؔ
ڈاکٹر محمد اقبال نے 1910ء میں وطن واپسی کے بعد وکالت کے ساتھ سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے فکری اور سیاسی طور پر منتشر مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا، 1934کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے رکن بنے تاہم طبیعت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ قیام پاکستان سے 9برس قبل 21اپریل 1938کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے، اُن کو بادشاہی مسجد کے قریب سپردخاک کیا گیا۔
لب پہ آتی ہے دعابن کے تمنامیری
زندگی شمع کی صورت ہوخدایامیری
میری اللہ! برائی سے بچانامجھ کو
نیک جوراہ ہواُ س رہ پہ چلانامجھ کو
اقبالؔ
اللہ سے کرے دور،تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
اقبالؔ
دیار عشق میں اپنامقام پیداکر
نیا ز مانہ نئے صبح وشام پیداکر
خدااگردل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ وگل میں کلام پیداکر
اقبالؔ
تماشہ تودیکھوکہ دوزخ کی آتش
لگائے خدا اور بجھائے محمدؐ
تعجب ہے کہ فردوس اعلیٰ
بنائے خدا اور بسائے محمدؐ
اقبالؔ