.
سوال۔ ۔۔ جمعیت علماء اسلام سے آپ کی وابستگی کب سے ہے؟؟
حافظ انعام میمن۔۔۔ویسے میں نے جس خاندان میں آنکھ کھولا ہے اس خاندان کا جمعیت علماء اسلام سے نظریاتی تعلق رہا ہے۔اگرچہ عملی سیاست میں ان کااتنا رول نہیں رہا ہے مگر فکری اعتبار سے میرے والد محترم الحاج محمدحنیف میمن علماء دیوبند بلخصوص مفتی محمود رحمہ اللہ اور قائید جمعیت مولانا فضل الرحمان کے ساتھ والھانہ عقیدت رکھتا ہے۔ظاہری بات یہ کہ گھر کے ماحول کا ضرور اثر ہوتا ہے اس ماحول کے اثر تھے میں نے 204 میں باقاعدہ جماعتی سیاست میں ایک متحرک کارکن کی حیثیت سے جماعتی خدمات شروع کرنے کا شرف حاصل کیا
: سوال۔۔۔اس وقت آپ کے پاس کوئی جماعتی عہدہ ہے؟
حافظ انعام میمن۔۔۔جی اس وقت میں ضلع شرقی کا سینئر نائب امیر ہوں۔
سوال۔۔۔ویسے آپ نائب امیر ضلع شرقی کراچی کے مگر متحرک چترال میں کیوں؟؟
حافظ انعام میمن۔۔۔دراصل کراچی کے بعد میں چترال کو اپنا دوسرا مسکن اور گھر تصور کرتا ہوں اور حقیقت بہی ایسی ہے۔اپنی گھر کے بعد ہر کسی کا دوسرا گھر سسرال ہی ہوا کرتا ہے۔دوسری بات جمعیت علماء اسلام کی دستوراور منشور آفاقی ہے نہ وہ لسانیت کے بنیاد پر سیاست کا قائل ہے اور نہ علاقائیت کے بنیاد بلکہ میں اگر کہ دوں جمعیت علماء اسلام کی سیاست اسلامی نظریاتی سیاست ہے جس کا کوئی جغرافیائی حدود تعین نہیں۔لہذا اس مشن کی تکمیل کے خاطر اپنی ملک سے باہر جاکر کام نہیں کرسکتے تو اپنی مملکت میں کسی بہی علاقے میں دین اسلام کی سربلندی کے خاطر سیاست میں حصہ لینے یا کام کرنے میں کوئی قابل اعتراض نکتہ نہیں
: سوال۔۔۔نو منتخب ممبر صوبائی اسمبلی چترال مولانا ہدایت الرحمان سے آپ کا تعلق کب سے ہے؟
حافظ انعام میمن۔۔۔تقریبا1996 ء سے ہے
سوال۔۔۔پہلی بار چترال آنے کا اتفاق کس طرح ہوا؟؟
حافظ انعام میمن۔۔۔مولاناہدایت الرحمان سمیت چترالی ساتہیوں سے کراچی میں تعلق تہا۔ان کا مزاج محبت اور تمدن اس بات پر مجبور کیا کہ آخر دیکھا جائے کہ وہ سرزمین کتنا خوبصورت ہوگا جس کے باسی اتنے مہذب اور پیار بانٹنے والے ہو۔۔
سوال۔۔۔۔ پہلا دورہ چترال بہی شائید مولانا ہدایت الرحمان کی معیت میں کئے ہونگے۔۔؟
نہیں جی اس کا بڑا بہائی مولانا عنایت الرحمان کے ساتھ جو ان دنوں کراچی میں رہائیش پزیر ہے۔
سوال۔۔۔چترال کے بعض اچھے خاصے علاقائی سیاست پر نظر رکھنے ولے حضرات سے سننے میں آیا ہے کہ صوبائی اسمبلی کا جماعتی ٹکٹ مولانا ھدایت الرحمان کو دلوانے میں آپ کا مرکزی رول رہا ہے۔بلکہ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ اس میں آپ نے اپنے اثرو رسوخ استعمال کرکے میرٹ کے خلاف فیصلے کرائے۔
حافظ انعام میمن۔۔۔((مسکراہٹ کے ساتھ) دراصل حقیقت کے عین تناظر میں سیاسی سوچ کے مطابق دیکھا جائے تو ضلعی صوبائی اور مرکزی جماعت نے میرٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کر کے عین حالات کے موافق مولانا ہدایت الرحمان کو ٹکٹ فرہم کئے تھے۔جس کا مثبت نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔میں آپ کو یہاں یہ وضاحت کروں ایم ایم اے بننے کے بعد فارمولے کے مطابق قومی اسمبلی کا ٹکٹ مولانا عبدالاکبر چترالی کو ملا جس کا تعلق سب ڈیویژن چترال سے ہے اب جمعیت کا ٹکٹ بہی ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے سابق ایم پی اے مولاناعبدالرحمان یا ڈسٹرکٹ نائب ناظم اعلی مولانا عبدالشکور کو مل جاتا۔یقینی بات تھی کہ اپر سب ڈیویژن کے عوام میں احساس محرومی پہیل جاتی ایم ایم اے کے دونوں امیدواروں کا تعلق لوئیر چترال سے بن جاتی اس اعتبار سے جماعتی قائیدین نے اپر چترال سے امیدوار لانے کو ترجیح دی۔پہر اپر چترال میں مولانا فتح الباری اور مولانا شیرکریم سے مولانا ہدایت الرحمان کو اس بنیاد پر ترجیح دی گئ کہ وہ 2013 میں قومی اسمبلی کا الیکش جماعتی پلیٹ فارم سے لڑکر خود کو عوام میں متعارف کیا تھا۔اور ساتھی 2008 ء کے الیکشن میں کراچی میں قومی اسمبلی کی سیٹ پر ایم کیو ایم جیسی مضبوط جماعت کے خلاف الیکشن لڑکر کافی ووٹ حاصل کئے تھے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موصوف الیکشن لڑنے کا ایک حد تک کافی تجربہ رکھتے تھے۔لہذا یہ کہنا میرٹ کے خلاف ٹکٹ دلوائی گئ بلکل حقیقت اس بات میں نہیں ہے بلکہ یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ خالص میرٹ کے بنیاد پر ٹکٹ دی گئی ہے