الیکشن 2018 میں متحدہ مجلس عمل نے چترال میں ایک مرتبہ پھر میدان مار لیا۔ اور سابق ایم این اے چترال مولانا عبدالاکبر نے دوسری بار قومی اسمبلی این اے ون اور مولانا ہدایت الرحمن نے پہلی مرتبہ پی کے ون سے کامیابی حاصل کی

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمائندہ چترال میل) الیکشن 2018 میں متحدہ مجلس عمل نے چترال میں ایک مرتبہ پھر میدان مار لیا۔ اور سابق ایم این اے چترال مولانا عبدالاکبر نے دوسری بار قومی اسمبلی این اے ون اور مولانا ہدایت الرحمن نے پہلی مرتبہ پی کے ون سے کامیابی حاصل کی۔ جبکہ ان کے قریبی حریب پاکستان تحریک انصاف کے عبد اللطیف اور اسرارالدین کامیاب نہ ہو سکے۔ 25جولائی کو ملک بھر میں منعقد ہونے والے جنرل الیکشن 2018کے نتائج 26جولائی کو مکمل ہوئے اور ڈسٹرک ریٹرننگ آفیسر چترال کے آفس میں ڈسپلے ہونے والے غیر حتمی نتائج کے مطابق مولانا عبد الاکبر چترالی امیدوار متحدہ مجلس عمل 48616ووٹ لے کر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ جبکہ اُن کے قریبی حریف نامزد امیداوار پاکستان تحریک انصاف عبد اللطیف 38481ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی پیکے ون کا مقابلہ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار مولانا ہدایت الرحمن اور قریبی حریف پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اسرارالدین کے مابین ہوا۔ جس میں مولانا ہدایت الرحمن 45629 ووٹ لے کر کامیاب رہے اور اسرارالدین نے 40490 ووٹ لے کر رنر اپ رہے۔ قومی اسمبلی کے دیگر امیدوار سلیم خان پی پی پی نے 32636شہزادہ افتخارالدین پاکستان مسلم لیگ ن 21016ووٹ ہی لے سکے۔ اور پی کے ون چترال میں حاجی غلام محمد پاکستان پیپلز پارٹی 30500عبدالولی خان ایڈوکیٹ 16290سہراب خان آل پاکستان مسلم لیگ 11051ووٹ ہی لے سکے۔ چترال کے یہ الیکشن اپنے انعقاد تک انتہائی دلچسپ رہے۔ جس میں مجموعی طور پر متحدہ مجلس عمل اور پاکستان تحریک انصاف انتخابی حالات پر چھائے رہے۔ الیکشن انتہائی پُر امن ماحول میں انجام پائے۔ اور کسی بھی پولنگ سٹیشن یا علاقے سے کسی بھی قسم کی شکایات سامنے نہیں آئے۔ الیکشن کے انعقاد سے لے کر گنتی کے اختتام تک فُل پروف سیکیورٹی رہی۔ جس میں پاک آرمی، چترال سکاؤٹس، پولیس، لیویز اور رضاکار فورس نے خدمات انجام دیں۔ تاہم انتخابی نتائج کا حصو ل انتہائی طور پر سست روی کا شکار رہا۔ جبکہ گذشتہ انتخابات میں نتائج اب کی نسبت بہت جلد مکمل ہوا کرتے تھے۔ الیکشن کے اس عمل میں صوبائی سطح پر پاکستان تحریک انصاف کی بہت بہتر نتائج کی بنا پر چترال کی کالاش برادری سے تعق رکھنے والے نوجوان وزیر زادہ کالاش کی اقلیتی نشست پر انتخاب یقینی بن گئی ہے۔ اور تحریک انصاف نے اُسے اقلیتی فہرست میں دوسرے نمبر پر نامزد کیا تھا۔ اس سے چترال کی ایک نشست جو آبادی کی کمی کے باعث ختم ہو گئی تھی۔ کسی نہ کسی حد تک کمی دور ہوجائے گی۔ چترال میں اس مرتبہ ووٹ کا مجموعی ٹرن اوٹ 60.97فیصد رہا جو کہ سابقہ شرح کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ انتخابات میں کُل 5430ووٹ مسترد ہوئے۔ موجودہ انتخابات دو سابق ایم پی ایز سلیم خان اور حاجی غلام محمد ناک اوٹ ہوئے۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما و سابق ایم این اے شہزادہ افتخارالدین کو بھی اپنی سیٹ سے ہاتھ دونا پڑا۔ ووٹ کے حوالے سے علاقہ لٹکوہ کے لوگوں اپنے ہی سپوتوں کا بھرم رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن اس مرتبہ اُن کی سیاست کام نہ آسکی۔ خواتین نے حالیہ الیکشن میں بھر پور حصہ لیا۔ اور گزشتہ تمام انتخابات کے مقابلے میں نہ صرف اپنی شرکت کو یقینی بنایا بلکہ انتخابی عمل میں بہت زیادہ جوش دیکھنے میں آیا۔