داد بیداد۔۔آنے والی حکومت کا خاکہ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

ؔ

پاکستان میں 25جولائی کے بعد آنے والی حکومت کا خاکہ (Sketch) تیا ر ہوچکا ہے کپیٹل ہل (Capital Hill)،وائٹ ہاؤ س اور آب پارہ میں اس کا مسودہ بھی لکھا جاچکا ہے نمایاں خد وخال واضح ہوچکے ہیں البتہ خاکہ میں رنگ بھرنے کیلئے پس پردہ سودے بازی ہورہی ہے ”کچھ لو کچھ دو“ کے اصول پر ہرایک کو اُ س کا حصہ ملے گا دو باتیں پہلے سے طے ہیں پہلی بات یہ طے ہوچکی ہے کہ جن جن لوگوں کے نام پارلیمانی جمہوریت کے وزیر اعظم کے طور پر اب تک گردش میں تھے وہ سارے نام اس خاکے اور مسودے سے نکال دیئے گئے ہیں غیر سرکاری تنظیموں کے اصول کے مطابقSWOTکا جائزہ لیا گیا ہے چار اُمیدواروں کی خوبیاں، خامیاں، آنے والے مواقع اور خطرات پر طویل بحث ہوچکی ہے 10مردوں نے ایک طاقتور خاتون کو بریفنگ دی ہے طاقتور خاتون نے طاقتور مرد کو بریفنگ دی ہے پاکستان میں آنے والی حکومت اور وزیر اعظم کے لئے رہنما اصول طے کئے جاچکے ہیں آنے والی حکومت جمہوری نہیں ہوگی خود مختار نہیں ہوگی اُس کے سر پر عوامی طاقت سے منتخب ہونے کا نشہ سوار نہیں ہوگا بلکہ کسی کی خاص عنایت سے حکومت میں آنے کا جذبہ موجزن ہوگا چار بنیادی اصولوں پر عملدرآمد کو یقینی بنایا گیا ہے پہلا اصول یہ ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کی حدود حکومت خود طے نہیں کرے گی دوسرا اصول یہ ہے ک خارجہ تعلقات میں امریکی مفادات کو مقدم رکھا جائے گا اسے اولین ترجیح کا درجہ دیا جائے گا ماضی میں ایران، پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن اس وجہ سے ناکام ہوا حال ہی میں ترکمانستان، افغانستان، انڈیا پاکستان انرجی کا منصوبہ التوا میں ڈال دیا گیا وجہ یہی تھی اس وقت سب سے زیادہ حسا س اور سب سے زیادہ متنازعہ مسئلہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) ہے امریکی مفادات پر سمجھوتے کا بہانہ بناکر گذشتہ ایک سال سے اس منصوبے کو معلق (Hanging) پوزیشن میں رکھا گیا ہے گوادر کی بندرگاہ کو باقاعدہ کھولنے میں یہی امر مانع ہے کہ سردست امریکہ اس کو اپنے مفادات کے خلاف سازش قرار دیتا ہے کلبھوشن یادو اور کرنل جوزف یہی کام کررہے تھے اس وقت امریکہ اور بھارت کے 400سے زیادہ اہلکار پاکستان میں اس کام پر مامور ہیں تیسرا مگر اہم ترین اصول یہ ہے کہ بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ ”حالت جنگ“ کی سطح پر رکھا جائے گا دوستی، خیر سگالی، امن اور آشتی کو برداشت نہیں کیا جائے گا جہاں امن ہو وہاں امریکہ کی دال نہیں گلتی پڑوسیوں کے ساتھ امن کا علمبردار ملک امریکہ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا چوتھا اہم اصول یہ ہے کہ روس کے ساتھ 1960 ء کے عشرے والا فاصلہ رکھا جائے گا پاکستان میں ایسی کوئی حکومت پینٹا گون اور وائٹ ہاؤس کو منظور نہیں ہوگی جو امریکہ سے ڈکٹیشن نہ لے اعصاب کی اس جنگ میں زرداری، شہباز شریف، شاہ محمود قریشی، مولانا فضل الرحمن، آفتاب شیر پاؤ، چوہدری نثار علی خان، محمود خان اچکزئی اور الطاف حسین اپنے اپنے مہروں کے ذریعے حصہ لے رہے ہیں 1983ء میں جو شخص منظور نظر تھا وہ راندہ درگاہ ہوچکا ہے 2007ء میں جو شخص قابل قبول تھا وہ شخص اب قابل قبول نہیں رہا 2012ء میں جس شخص کی دبنگ زنٹری کروائی گئی تھی اس کو مسترد کر دیا گیا ہے اب معین قریشی، شوکت عزیز اور سنجرانی کی تلاش کے لئے اہم لوگوں کا اعتماد حاصل کیا گیا ہے ایسا بندہ ضرورمل جائے گا جس کی ڈوری اُن کے ہاتھ میں ہوگی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تقسیم ہوچکی ہے جن کو عوام کی پذیرائی پر غرور تھا اُن سب کو آؤٹ دیا گیا ہے اب قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی پارٹی کوئی نہیں ہوگی 26جولائی کے اخبارات میں معلق پارلیمنٹ (Hung Parliament) کی سرخیاں ہمارا منہ چڑا رہی ہونگی362ارکان کے ایوا ن میں کسی بھی پارٹی کو 55 سے زیادہ نشستیں نہیں ملیں گی جن آزاد ارکان کو شیر اور تیر کے خوف سے جیپ میں سوار کیا گیا ہے وہ بھی 50کا ہندسہ عبور نہیں کر سکیں گے جیپ کے انتخابی نشان کو ”کنگ میکر“ کے طور پر آگے لایاجائے گا ”کون بنے گا کٹھ پتلی“ وقت کا اہم سوال ہوگا جو درودیوار پر نقش ہوگا پشتومحاورے کی رو سے جتنا گڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہوگا گُڑ ڈالنے کا مطالبہ نیا نہیں ہے وائٹ ہاؤس کے نادیدہ ہاتھوں میں وفاقی حکومت کی تین وزارتیں ہونی چاہیئں وزارت خزانہ، وزارت دفاع اور وزارت داخلہ باقی وزارتیں یعنی امداد باہمی، ماحولیات،ماہی گیری، بلدیات، بین الاقوامی رابطہ، اثار قدیمہ وغیرہ ”جمہوری حکومت“ کے پاس رہیں گی سیاستدانوں کے لئے سودے بازی کی صلاحیت دکھانے کا یہ سنہرا موقع ہے جو پارٹی زیادہ سے زیادہ لچک دکھائے گی وہی وائٹ ہاؤس اور پینٹا گون کے لئے قابل قبول ہوگی اس خاکے اور منظر نامے کے اندر عوام اور ووٹروں کا کردار صرف اتنا ہے کہ نتائج سے بے پروا ہوکر ووٹ دو ”نیکی کر دریا میں ڈال“ کے اصول پر عمل کر کے ”ووٹ دو اور بھول جاؤ“ پاکستان کی مشہور اقلیت کالاش کی زبان میں مشہور ضرب المثل ہے جو بھی تخت پر بیٹھے وہ میرا حکمران ہے پاکستا ن کا ووٹر اپنے ووٹ سے حکمران منتخب نہیں کر لے گا اُن کی پسند کے حکمران کا خیر مقدم کرے گا یہ سٹینڈرڈ اوپریٹنگ پروسیجر یعنی SOPہے اس کے تحت 25 جولائی 2018 ء کے بعد آنے والی حکومت کا خاکہ تیار ہے اس میں رنگ بھرا جارہا ہے پڑوسی ملک میں جشن ریختہ کے بڑے مشاعرے میں شاعر نے اردو میں کلام سنایا ”میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔
کسی کا حکم ہے
کہ ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ اُن کی سمت کیا ہے!
ہواؤں کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ چلیں گی تو کیا ان کی رفتار ہوگی !
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
کسی کا حکم ہے کہ دریا کی لہریں
ذرا یہ اپنی سرکشی کم کرلیں
اپنی حد میں ٹھہریں
بھپرنا اور ابھرنا
ابھر کے پھر بھپرنا
یہ سب ہے بغاوت کی علامت
اور بغاوت اب نہیں برداشت ہوگی
کسی کا حکم ہے کہ گلستان میں فقط ایک ہی رنگ کے ہی پھول ہوں گے
پھولوں کا رنگ کیا ہوگا
یہ افسر طے کریں گے
کسی کا حکم ہے۔۔۔
کوئی ان کو کیسے بتائے
کہ ہواؤں کو مقید رکھا نہیں جاتا
لہروں کو پابند کیا نہیں جاتا
جب لہروں پر ہاتھ ڈالا جائے
تو دریا بے تاب ہوتا ہے
اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے