صدا بصحرا۔۔چاند نظر نہیں آیا۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

”چاند نظر نہیں آیا“ اس جملے کا استعمال سال میں دو بار سے زیادہ ہوجائے تو گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا موجودہ چیئرمین مفتی منیب الرحمن سال میں 7بار اور کبھی 9بار یہ جملہ بولتاہے اس جملے کے بعد رواں مہینہ 30دن کا ہوجاتا ہے آنے والے مہینے کی پہلی تاریخ میں ایک دن کی تاخیر ہوجاتی ہے ذی الحجہ، محرم اور ربیع الاول کی تاریخوں میں تھوڑی سی اونچ نیچ ہوجاتی ہے۔ رمضان المبارک اور شوال کی تاریخوں میں ایک دن کی کمی یا بیشی سے زمین و آسمان کا فرق پڑجاتاہے۔ رمضان کی یکم کو 30شعبان قرار دیا جائے تو روزہ خوری کا گناہ سرزد ہوجاتاہے۔ یکم شوال کو 30رمضان قرار دیا جائے تو عید کے دن روزہ رکھنے کا گناہ لازم آتاہے۔ اس طرح ایک طرف روزے میں گڑ بڑ ہوگئی دوسری طرف عید میں گڑبڑ ہوگئی ؎
نہ خد ا ہی ملا نہ وصال ِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے ہم
گذشتہ 25سالوں سے ایک شخص مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا چیئرمین ہے۔ اصولی طور پر ہر 3سال بعد چیئرمین کو تبدیل ہونا چاہیئے۔ مفتی منیب الرحمن کو پہلے ہی سال تبدیل ہونا چاہیئے تھا کیونکہ انہوں نے خیبر پختونخوا سے آنے والی کسی بھی شہادت کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان میں 3مقامات چاند کی شہادت کے لئے تاریخی طور پر شہرت رکھتے ہیں۔کراچی میں مفتی رشید احمد صاحب کا مدرسہ جامعتہ الرشید، چارسدہ میں صاحب حق آف رجڑ کا مدرسہ اور پشاور میں مسجد قاسم علی خان۔ چارسدہ کے صاحب حق اور قصہ خوانی بازار کی مسجد قاسم علی خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1860ء میں انگریزوں کا پلٹن آیا تو یہاں پر مسلمانوں کے روزے اور عید کا اعلان ان دو مقامات سے ہوتاتھا۔ اعلان کے بعد ہوائی فائرنگ کے ذریعے دور دور تک خبر پہنچائی جاتی تھی انگریزوں نے اس سسٹم کو نہیں چھیڑا۔ 1903ء میں نیاصوبہ وجود میں آیا تب بھی صوبائی حکومت نے اس روایت کی پاسداری کی۔ قیام پاکستان کے بعد مرکزی رویت ہلال کمیٹی بنی تب بھی چاند دیکھنے کے قدیم سسٹم کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔ مولانااحتشام الحق تھانوی مرکزی رُویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین بنے انہوں نے مفتی پوپلزئی اور مسجد قاسم علی خان کی کمیٹی کو بجا طور پر وقعت دی۔ کسی بھی مرحلے پر ایسا ظاہر ہونے نہیں دیا کہ پاکستان کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی پشاور اور چارسدہ کے مسلمانوں کی شہادت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اگر تاریخی ریکارڈ لیا جائے تو مسجد قاسم علی خان کے خطیب نے ہر سال 10مہینے 29دن اور 2مہینے 30دن رکھنے کا التزام کیا۔ شہادتوں کے سلسلے میں شرعی فتاویٰ کو سامنے رکھا۔ اگر شہادت شریعت کے چار اصولوں پر پوری اترتی ہے تو قبول کیا۔ ان میں سے ایک اصول میں بھی کوتاہی پائی جائے تو قبول نہیں کیااور شرعی لحاظ سے کوئی کمی رہنے نہیں دی۔ اس کے مقابلے میں مفتی منیب الرحمن کا طرز عمل شرعی اصولوں کے برعکس ہے۔ شریعت کا اہم اصول یہ ہے کہ 12مہینوں میں 10مہینے 29دن کے ہوتے ہیں۔ صرف 2مہینے 30دن کے ہوتے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن سال کے پہلے چار مہینوں کو 30دن پھر آخری 4مہینے کو 30دن شمار کرتا ہے۔ بعض سال ایسے ہوتے ہیں جب وہ درمیاں میں بھی ایک مہینہ اُٹھا کر 30دن کا کر دیتاہے۔ جو ”عدّت شہور“ کے شرعی اصولوں کے بالکل منافی ہے۔سال میں 9مہینوں کو 30دن حساب کرنے کی کوئی بنیاد نہیں۔ ”چاند نظر نہیں آیااس لئے کل کی جگہ پرسوں یکم تاریخ ہوگی“۔ یہ اعلان سال میں صرف 2بار ہوسکتاہے۔ تیسری دفعہ اس قسم کے اعلان کی نہ تُک بنتی ہے نہ اس کی گنجائش ہے۔ اب جب کہ 25سال ہوچکے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن نے اپنے عہدے کی سلور جوبلی مکمل کی ہے۔ اب نگران حکومت کو پہلی فرصت میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو توڑ کر جامعتہ الرشید کراچی، جامعتہ اشرفیہ لاہور، جامعہ فریدیہ اسلام آبادیامسجدقاسم علی خان پشاور کے کسی ذمہ دار مفتی کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنا چاہیئے تاکہ باہمی ضد، منافرت اورہٹ دھرمی کی موجودہ فضا کو باہمی یگانگت کی بہتر فضا میں بدل دینے کی راہ ہموار ہواور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی ساکھ دوبارہ بحال ہوجائے۔