ؔ
شام اور یمن میں کلمہ گوایک دوسرے پر حملے کررہے ہیں پاکستان اور افغانستان میں کلمہ گُو ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ مگر یہ اُن کی اپنی جنگ نہیں ہے۔ یہ امریکہ اور روس کی لڑائی ہے یہ سعودی عرب اور ایران کی لڑائی ہے۔ جنگ لڑنے والا اور جنگ کے فوائد سمیٹنے والا بہت دور بیٹھا ہے۔ وہ صرف پیسہ لگاتا ہے۔ مال خرچ کرتاہے۔ اور یہ لڑائیاں کب ہورہی ہیں؟ 2018ء میں یہ لڑائیاں ہورہی ہیں جن کا انگریزی نام ”پروکسی وار (Proxy War) ہے۔ اردو میں اس کو گُماشتوں کی لڑائی کہا جاسکتا ہے۔ گُماشتہ کے لئے انگریزی لفظ ایجنٹ ہے۔ دولت مند اور ذہین لوگ اپنے درپردہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے غریب اور نادان لوگوں کو گماشتہ کے طور پر رکھ لیتے ہیں۔ ان کو گاڑی، اسلحہ اور پیسہ دے دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ اس کو یہ بھی باور کراتے ہیں کہ تم میرے لئے نہیں اپنے مفاد کیلئے لڑو گے وہ مرتے دم تک اس خوش فہمی میں ہوتا ہے کہ میں اپنے لئے لڑ رہا ہوں۔ جو مجھے پیسے دیتا ہے۔ وہ میرا ہمدرد ہے۔ مرنے کے بعد پتہ لگ جائیگا کہ میں دھوکے میں تھا۔ مجھے فریب دیا گیا۔ انگریزی میں ایسے لوگوں کے لئے mercenaryکا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ہے ”کرایے کے جنگجو“ یمن، شام، افغانستان اور پاکستان میں کرایے کے جنگجو ہی لڑرہے ہیں۔ کوئی امریکی، روسی، سعودی اور ایرانی نہیں لڑتا۔ ایسے لوگ لڑتے مرتے ہیں جن کا لڑائی سے کوئی تعلق نہیں۔ ان میں سے جو ان پڑھ ہیں یا نیم خواندہ ہیں وہ نہیں جانتے کہ دنیا کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ جو لوگ پڑھے لکھے افراد میں شمارہوتے ہیں ان کو چار بڑے حقائق کا علم ہے مگر دولت، حرص، لالچ اور طمع نے ان کو اندھا کر دیا ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ اٹھارویں صدی میں امریکہ کے قبائل ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ امریکہ کی خانہ جنگی دنیا کی سب سے بڑی خانہ جنگی تھی۔ اب وہ جانی دشمن ایک دوسرے کے بھائی بن چکے ہیں اور دنیا پر حکومت کررہے ہیں۔ دو سو سالوں کے عرصے میں ان کی دشمنی بھائی چارے میں بدل گئی۔ کیونکہ ان کا قومی مفاد لڑائی اور خونریزی میں نہیں تھا بلکہ دوستی اور بھائی چارے میں تھا۔ پڑھے لکھے جنگجوؤں کو یہ بھی معلوم ہے کہ بیسویں صدی میں فرانس اور جرمنی کی آپس میں دشمنی تھی۔ برطانیہ ایسا ملک تھا جو فرانس کا بھی دشمن تھا۔ جرمنی کا بھی دشمن تھا۔ دوعالمی جنگیں یورپ کی ان قوموں نے آپس کی دشمنی میں لڑیں۔ مگر اکیسویں صدی آنے سے پہلے وہ دوستی اور بھائی چارے میں اس طرح منسلک ہوگئیں کہ مشترکہ پارلیمنٹ اور مشترکہ کرنسی پر متفق ہوگئیں یورپی یونین وجود میں آیا۔ وجہ کیا تھی؟ یورپی اقوام نے دیکھا کہ اکیسویں صدی دشمنی کی صدی نہیں۔ ترقی اور خوشحالی کی صدی ہے۔ اس کو دشمنی اور لڑائی میں ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ تیسری بڑی حقیقت پڑھے لکھے لوگوں کے سامنے اب آگئی ہے۔شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیاں صلح ہوگئی ہے۔ 1953ء سے 2018ء تک دونوں میں دشمنی چلی آرہی تھی۔ جنوبی کوریا معاشی ترقی پر توجہ دے رہا تھا۔ اس کے دفاعی امور امریکہ کے ہاتھ میں تھے۔ شمالی کوریا ایٹمی اسلحہ، میزائل اور جنگی ہتھیار بنارہا تھا تاکہ جنوبی کوریا میں امریکی فوج کامقابلہ کرسکے۔ اپریل 2018ء میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں نے صلح کا معاہدہ کیا۔ شمالی کوریا کے صدر نے جنگی ہتھیاروں کی جگہ سماجی اور معاشی ترقی کے لئے وسائل فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ دونوں دشمن بھائی بھائی بن گئے۔ چوتھی حقیقت بھی پڑھے لکھے لوگوں سے پوشیدہ نہیں کہ دنیامیں کلمہ گو لوگوں کو مسلمان کہا جاتا ہے۔ کلمہ گو لوگوں کی آبادی ڈیڑھ ارب نفوس پر مشتمل ہے۔ دنیا کے نقشے میں کلمہ گو آبادی کو عیسائی،یہودی،ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے مقابلے میں مسلمان کہا جاتا ہے۔یہودی کا میزائل لبنان، فلسطین، یمن اور شام میں شیعہ اور سنی دونوں کو نشانہ بناتا ہے۔ ایران کو بھی مارتا ہے۔ عرب کو بھی مارتا ہے۔ یہودی کا راکٹ یا گولہ عرب اور عجم کی تمیز نہیں کرتا۔ کشمیر میں ہندو کاگولہ یا راکٹ گرتا ہے توشیعہ اور سنی، دیوبندی اور بریلوی، مقلد اور غیر مقلد سب مرتے ہیں کیونکہ دشمن کی نظر میں کلمہ گو کے لئے مسلمان کا نام استعمال ہوتاہے۔ گماشتوں کی لڑائی میں ہمارے جنگجواس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں کفار نے آپس کی دشمنیوں کو ختم کردیا ہے۔مگر مسلمانوں نے آپس کی دشمنیوں کوآمدن کا ذریعہ بنالیاہے۔دشمنیاں ختم ہوئیں تو دولت کی یہ ریل پیل، ائیر کنڈیشنڈ گاڑیاں، بڑی بڑی کو ٹھیاں کہاں سے آئیں گی؟ نفاذ شریعت 1970ء میں علماء کی پہلی ترجیح تھی۔ 1974ء تک پہلی ترجیح رہی اب نفاذ شریعت اور نظامصطفی پہلی ترجیح نہیں رہی، دولت، پیسہ،اقتدار پہلی ترجیح ہے۔اس لئے علمائے دیوبند کے 13گروہ الگ الگ ہیں۔بریلویوں کے 9گروہ الگ الگ ہیں۔ اہل تشیع اور اہل حدیث الگ ہیں۔ اصل لڑائی امریکہ اور روس کی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کی ہے۔ یہ سب جنگجو، سارے خطیب، سب مقرریں دشمن کے گماشتوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ علامہ اقبال نے شاید غلط بات نہیں کہی ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک