ؔ
صوبائی دالحکومت پشاور سمیت بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں میں عوامی اجتماعات کے ذریعے ”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ مستانہ بلند کیا گیا ہے یہ نعرہ قوم کی آواز ہے اور اس نعرے کی وجہ سے اسرائیل، بھارت، افغانستان اور امریکہ سمیت کئی ممالک کو وہی پیغام ملا ہے جو اگست 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت ملا تھا اور 1974ء میں لاہور کے اندر اسلامی سربراہ کانفرنس کے ذریعے دیاگیا تھا پاکستان کے دشمنوں کو تین باتوں کا دُکھ ہے پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان 1971ء میں ختم کیوں نہیں ہوا؟ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت کیوں بنا؟ اور تیسری بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں پاک فوج کی حمایت میں کیو ں اور کس لئے کمر بستہ ہوجاتی ہیں؟ نپولین کا مشہور قول ہے کہ جنگوں میں بندوق کی اہمیت نہیں ہوتی بندوق کے پیچھے جو قوم ہوتی ہے وہ اہم ہے جنگیں بندوق کے ذریعے نہیں جیتی جاسکتیں قوم کے ذریعے جیتی جاسکتی ہیں فرانسیسی مفکر، مدبّر اور ادیب سارتر جنرل ڈیگال کا ہم عصر تھا ایک وقت ایسا آیا جب فرانسیسی خفیہ ادارے نے سارتر کو گرفتار کر نے کی تجویز دی جنرل ڈیگال نے تجویز کو رد کرتے ہوئے لکھا سارتر فرانسیسی قوم کی شناخت ہے فرانس کا چہرہ ہے ہم اپنی قوم کو، قوم کے چہرے کو جیل میں ڈال کر دُنیا کو کیا منہ دکھائیں گے؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں برطانوی فوج نے نو آبادیات کے اندر بسنے والی قوموں سے مدد کی اپیل کی تاج برطانیہ کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کی حکومت مشرق سے مغرب تک اس طرح پھیلی ہوئی تھی کہ اُن کے پرچم یونین جیک پر سورج غروب نہیں ہوتا یعنی ایک ملک میں غروب کا وقت ہوجاتا تو دوسرے ملک میں طلوع کا وقت ہوتا تھا پھر بھی ان کو عوام کا سہارا لینا پڑتا تھا پاکستان نے بیرونی دشمن کے خلاف 1948ء اور 1965ء میں جو بڑی جنگیں لڑیں ان میں پاک فوج نے عوام کی بھرپور تائید اور حمایت سے کامیابیاں حاصل کیں حفیظ جالندھری نے اپنی نظموں میں مہمند، آفریدی، شنواری، وزیر اور محسود قبائل کی رضاکار فورس کا ذکر کیا ہے اور ان بہادروں کو خراج تحسین پیش کیا ہے سکردو کا قلعہ چترال کی رضاکار فورس نے فتح کیا شہزادہ مطاع الملک نے کرنل تھاپا کو گرفتار کیا کیپٹن گنگا سنگھ مارے گئے جنرل محمد اکبر خان، جنرل مجید ملک اور پروفیسر منظوم علی نے اپنی کتابوں میں اس واقعے کا تفصیلی ذکر کیا ہے اکتوبر 1998ء میں پولیس سروس آف پاکستان کے دبنگ افیسر سلطان حنیف اورکزئی اوراُس وقت کے صوبائی ہوم سیکرٹری کرنل جہانزیب نے گورنرز کاٹیج چترال میں عوام کے بڑے اجتماع کے سامنے بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) کی 1966ء میں لکھی ہوئی رپورٹ دکھائی رپورٹ میں لکھا تھا ”1965ء کی جنگ کا بڑا سبق یہ ہے کہ جب تک پاکستانی قوم اپنی فوج کیساتھ ہے ہم جنگ نہیں جیت سکتے جنگ جیتنے کیلئے پاکستانی قوم کو فوج سے الگ کرنا ہوگا “5سال دشمنوں نے اس سکیم پر کام کیا مشرقی پاکستان میں ”مکتی باہنی“ بنائی پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے یہ لڑائی باہر سے حملہ کرنیوالے دشمن نے نہیں لڑی ملک کے اندر ہمارے سکولوں، کالجوں،یونیورسٹیوں، مدرسوں، مسجدوں،محلوں اور بازاروں سے اُٹھنے والے لوگوں نے دشمن کا کام آسان کردیا اندر کے دشمن نے جڑوں کو کاٹ دیا باہر کا دشمن تالیاں بجانے کے لئے آیایہ ماضی قریب کا واقعہ ہے آج مذہب کے نام پر 13مکتی باہنیاں پاکستان کے اندر کام کر رہی ہیں قومیت کا نام لیکر 10مکتی باہنیاں وجود میں آچکی ہیں بلوچ، پشتون، مہاجر، سرائیکی، سندھی، پنجابی،ہزارہ اور دیگر ناموں سے جو تنظیمیں آج پاکستان کے اخبارات میں بیان دیتی ہیں تو ایک ہفتہ بعد واشنگٹن، کابل اور لندن سے اس کی باز گشت سنائی دیتی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تاریں باہر سے ہلائی جارہی ہیں کٹھ پتلیاں یہاں ناچتی ہیں ہماری موجودہ نسل کو تین امور پر آگاہی اور شعور کی ضرورت ہے پہلی چیز یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے سکولوں میں ہندؤں کا ترانہ ”بندے ماترم“ گایا جاتا تھا پاکستان نہ رہا تو ایک بار پھر ہمارے سکولوں میں ہندؤں کا ترانہ گایا جائے گا دوسری چیز یہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان یونیورسٹیوں سے لیکر ملٹری اور سول سروس تک بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں یہ پاکستان کی برکت ہے پاکستان نہ رہا تو ہماری نئی نسل کو ہندؤں کی بالادستی قبول کرنی ہوگی تیسری اہم بات یہ ہے کہ گذشتہ 40سالوں کے اندر دشمنوں نے افغانستان، عراق اور لیبیا پر قبضہ کرنے کے لئے سب سے پہلے قوم کو فوج کے خلاف اکسایا پھر ملک پر دشمن کا قبضہ ہواشام، ایران اور پاکستان کے خلاف یہی حربہ آزمایا جارہا ہے آج کل کے حالات میں پاکستان زندہ باد کو تحریک کی صورت میں آگے بڑھانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر متفق ہونا چاہیئے ؎
خدا کرے میرے ارض پاک پر اترے
وہ فصل گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو