ؔ
چینی قیا دت نے ایک خطہ ایک روڈ BRI یا OBOR پر چابک دستی کے ساتھ پیش رفت کرتے ہوئے مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے کاروباری معاملات میں ابھرتے ہوئے تنازعات کو حل کرنے کا قانون تیا ر کرلیا ہے۔یہ قانون چینی کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے آنے والے اجلاس میں منظور کی جائے گی۔درین اثناء چینی قیادت نے زیورخ کے قریب ڈیوس سوئٹزر لینڈ میں منعقد ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم ون بیلٹ ون روڈ پر ایک اہم سیشن رکھا ا س سیشن میں چین کے قائدانہ کردار کو مزید اجاگر کیا گیا اور دنیا کے اہم کاروباری اداروں اور ملکوں کی توجہ چین کی طاقت کی طرف مبذول کیا گیا۔چین کے مقابلے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی 100رکنی وفد ساتھ ڈیوس میں موجود ہیں۔انہوں نے بھارتی مصنوعا ت اور بھارتی ثقافت کو متعارف کرایا ہے۔ان کے وفد میں صحافیوں، دانشوروں اور کاروباری شخصیا ت کے علاوہ فلمی دنیا کی مشہور شخصیا ت شاہ رخ خان بھی ہیں مگرچینی قیادت کا جواب نہیں۔ چینی قیادت نے گزشتہ 68سالوں میں ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے۔1949ء سے 1959ء تک کا عشرہ آگے کی طرف چھلانگ لگانے کا عشرہ کہلاتا ہے۔
1959ء سے 1969ء تک کا عشرہ پائیدار حکمت عملی کا عشرہ کہلاتا ہے۔1969ء سے1979تک کا عشرہ اڑان بھرنے کا عشرہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ عشرہ ابھی ختم نہیں ہو ا تھا کہ چین نے 1978ء نئی اڑان بھرتے ہوئے فری ٹریڈ اور مارکیٹ اکانومی کی طرف قدم بڑھایا۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چیئرمین ماؤ زے تنگ کے نظریا ت سے انحراف کیا گیامگر حقیقت میں چیئرمین ماؤ نے لینن اور سٹالن کے برعکس چینی کمیونسٹ پارٹی کے منشور میں اس کی گنجائش رکھی تھی کہ وقت گذرنے کے ساتھ اپنی معیشت کو سرمایہ درانہ نظام کا مقابلہ کرنے کی سطح پر لاکر ایسا پیکج لایا جاسکے جو سرمایہ درانہ نظام کا مقابلہ کرسکے۔انگریزی مقولہ ہے کہ ہیرا ہیرے کو کاٹتا ہے۔بھوک، غربت اور بیروزگاری کے ذریعے سرمایہ درانہ نظام کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔نظریا ت جامد ہوں تو موت کا کنواں ان کا مقدر ہوتا ہے۔سویت یونین کی قیادت اور لینن کے جانشینوں کو جامد کمیونزم کی نا کامی کے بعد 1988ء میں اس کا خیال آیامیخائل گوربا چوف نے گلاسناسٹ اور پیر سٹرائکاکے ذریعے معیشت کو آزاد کرنے کا اعلان کیا مگر وقت گذر چکا تھااس اعلان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آج کل چینی قیادت اُس پالیسی پر عمل پیرا ہے جو پالیسی 1840ء کے بعد برطانیہ نے اپنائی تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی اس پالیسی کا حصہ تھی۔”چینی قیادت کا وژن ون بیلٹ ون روڈ“ (OBOR) اس پالیسی کی طرح دنیا میں اپنی تجارت کو پھیلانے کی جامع چینی حکمت عملی ہے۔گذشتہ سال چینی کارخانوں کا مال ریل کے ذریعے مشرقی یورپ کے راستے برطانیہ پہنچایامال کی دوسری کھیپ سی پیک کے ذریعے گوادر بندرگا ہ سے مشرق وسطیٰ اور یورپ پہنچائی گئی۔ چینی قیادت کو بخوبی احساس ہے کہ موجودہ دور معیشت کے ذریعے دنیا کی حکمرانی حاصل کرنے کا دور ہے۔معاشی میدان میں ترقی کے لئے جغرافیائی سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔یہ میدان جغرافیائی سرحدوں سے ماوریٰ ہے اور چین اس راستے پر گامزن ہے۔آج جاپانی اور امریکی صارفین بھی چینی مصنوعات پر انحصار کرتے ہیں۔میڈل ایسٹ میں بھی چینی مصنوعات کی بڑی مارکیٹ ہے۔پاکستانی حجاج مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے چینی جائے نماز، تسبیح اور ٹوپیاں بطور سوغات لاتے ہیں اور یہ چینی قیادت کا کمال ہے۔چینی قیادت نے گذشتہ 68برسوں میں کمیونزم اور سوشلزم کے رہنما اصولوں کو جامد نہیں ہونے دیا۔وقت کے تقاضوں کو دیکھ کر ان کی برینڈنگ (Branding) کی۔ری پیکیجنگ (Re-Packaging) کا کام جاری رکھا اور ان کو وقت کے تقاضو ں سے ہم آہنگ کیا۔یہ کسی بھی ملک،قوم، مذہب اور نظریے کو ماننے والوں کی بڑی خوبی ہوتی ہے۔ جس نظریے کے علمبردار اپنے نظریے کو جامد کرلیتے ہیں سرد خانے میں ڈال دیتے ہیں وہ ملک، وہ قوم، وہ مذہب، وہ نظریہ وقت گذرنے کے ساتھ دم توڑ دیتا ہے۔اس وجہ سے زندہ قومیں اپنے نظریے کو جامد نہیں ہونے دیتے۔اس کو ”اپ ڈیٹ“کرتے ہیں۔وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے رہتے ہیں۔چیئرمین ماؤ سے جیانگ زی من اور جیانگ زی من سے شی جن پنگ تک جتنے بھی لیڈر آئے انہوں نے چین کے اساسی نظریے کو آگے بڑھایا۔اور دنیا میں ”سپر پاور“ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو للکارا کہ ہم تمہارا پیچھا کررہے ہیں۔ اب عوامی جمہوریہ چین پیچھا کرتے کرتے آگے نکل چکا ہے۔یہ چینی قیادت کی چابک دستی کا ثبوت ہے۔