چترال (محکم الدین) ایم پی اے پی کے 90چترال سید سردار حسین نے کہا ہے۔ کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے بھر پور تعاون سے بالائی چترال میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ چترال کے ضلع بننے کے بعد اتنی بڑی تعداد میں منصوبوں پر کام کی مثال نہیں ملتی۔ جو ان چار سالوں میں ہوئے ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل میں ایم این اے، ایم پی ایز، ضلع ناظم،تحصیل اور ویلج ناظمین تک سب نے بھر پور تعاون کیا۔ جس کیلئے وہ سب کے مشکور ہیں۔ چترال پریس کلب کے پروگرام “مہراکہ “میں مہمان مقرر کی حیثیت سے انہوں نے اپنے تین سالہ کارکردگی کی تفصیل پیش کی۔ جس میں صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ساجد اللہ ایڈوکیٹ نے تلخیص کار اور اعزازی مہمان تھے۔ جبکہ بڑی تعداد میں مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور صاحب بصیرت لوگوں نے پروگرام میں شرکت کی۔ سردار حسین نے کہا۔ کہ الیکشن کے بعد اُن کا ابتدائی ایک سال عدالتوں میں گزرا۔ لیکن جب سے انہوں نے رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا آغاز کیا۔ تو چترال کو پسماندگی سے نکالنے کیلئے اُن کی شب وروز کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ اونچی آواز میں بات کرکے اپنی سیاست تو منوائی جا سکتی ہے لیکن حکومت سے کام نہیں نکالا جا سکتا۔ اس لئے میں نے صوبائی حکومت سے نرم اور قریبی رابطہ بحال کرکے جو کام کئے۔ شائد جذباتی رویے اپنا کر یہ کام نہیں کئے جا سکتے تھے۔ انہوں چترال میں روڈز کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہا۔ کہ فی الحال چترال کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ کمیونیکیشن ہے۔ اور میں نے اس کو اولیت دی ہے۔ جس کے نتیجے میں آج اپر چترال میں بارہ پُل زیر تعمیر ہیں۔ جن میں زیادہ تر آر سی سی پُل ہیں اور ہر پُل کی لاگت پانچ سے سات کروڑ روپے ہے۔ سڑکوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کی منظوری ہو چکی ہیں۔ اور بعض پر کام جاری ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ وریجون ٹو تریچ روڈ،کوشٹ ٹو لون روڈ، بونی شندور روڈ، بریپ روڈ، شول کوچ بروغل روڈ، پھشک روڈ، بانگ، کھوت یخدیز روڈ، مڑپ، ریچ، اُجنو روڈ کی بحالی، منظوری اور بعض کی تعمیر کے کام جاری ہیں۔ اسی طرح لوٹ اویر، بونی گول، ریشن گول روڈز بحال کر دیے گئے ہیں۔ چترال بونی روڈ کو میں نے تین مرتبہ صاف کروایا۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے۔ کہ خاص چترال میں دو ایم پی ایز اور ضلع ناظم ہونے کے باوجود برنس سے چترال تک کی سڑک پر کوئی توجہ نہیں دیتے ۔ جس کی وجہ سے مختلف مقاما ت پر سڑک پرتکلیف دہ گھڑے بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ یارخون بائی پاس کیلئے فنڈ منظور ہو چکا ہے۔ بریپ پل کی تعمیر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا۔ بروغل میں پہلی مرتبہ پُل تعمیر کرکے رابطہ بحال کیا گیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے بروغل کی نصف سے زیادہ آبادی گاڑیوں پر آمدورفت سے محروم تھی۔ انہوں نے کہا۔ کہ آمدورفت کیلئے مذکورہ پُل اور سڑکیں مکمل ہوں گی۔ تو اپر چترال میں انقلاب آجائے گا۔ کیونکہ لوگوں کو آمدورفت کی سہولیات دستیاب ہوں گی۔ انہوں نے کہا۔ کہ ہم صحت سے متعلق بھی غافل نہیں رہے۔ کوئی بھی بی ایچ یو اور آر ایچ سی ڈاکٹر سے خالی نہیں ہے۔ حال ہی میں دو نئی ڈاکٹروں کی تعیناتی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ پی پی پی کے سابقہ دور میں پیپلز پرگرام کے تحت ڈسپنسری تعمیر کئے گئے تھے۔ اُن کیلئے سٹاف مقر کرکے اپریشنل کیا ہے۔ تین آر ایچ سیز منظور ہو چکے ہیں۔ اور پہلی مرتبہ 56کروڑ کی لاگت سے کیٹگری سی ہسپتال کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے۔ سردار حسین نے تعلیمی اداروں میں کئے جانے والے اقدامات کے حوالے سے بتایا۔ کہ چار ہائیر سکینڈری سکول، چار کروڑ روپے کی لاگت سے کمپیوٹر لیب پر کام جاری ہیں۔آٹھ ہائی سکولز، اور مڈل و پرائمری سکولز اپگریڈ کر دیے گئے ہیں۔ ڈگری کالج بونی کی 6500فٹ طویل چاردیواری تعمیر کی گئی ہے۔ گرلز ہائی سکول ہاسٹل بن رہی ہے۔ جس میں 600طالبات کی رہائش کی گنجائش ہو گی۔ ایم پی اے نے خوراک کے حوالے سے وزیر خوراک قلندر لودھی کے تعاون کی تعریف کی۔ اور کہا۔ کہ اپر چترال میں خراب گندم کی واپسی اور صاف گندم کی فراہمی منسٹر خوراک کا اہم کارنامہ ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ فوڈ میں ایک سو آسامیاں نکالی گئی ہیں۔ اپر چترال اور لوئر چترال کیلئے دو ڈی ایف سی کے پوسٹ منظور کئے ہیں۔ انہوں نے صوبائی وزیر کھیل کے تعاون سے بونی میں کھیل کے میدان کی تعمیر کا بھی ذکر کیا۔ ایم پی اے سردار حسین نے کہا۔ کہ اپر چترال میں موجودہ وقت میں لوگوں کو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے شدید مسائل کا سامنا ہے۔متاثرہ ریشن بجلی گھر کو دوبارہ جی ٹی زیڈ کمپنی بحال کرے گا۔ انہوں نے کہا۔ کہ صوبائی حکومت نے وقتی طور پر سولر کے ذریعے بعض صارفین کو سہولت پہنچائی۔ اور نہ رینٹل پاور مستقل حل ہے۔ تاہم جو سہولت صوبائی حکومت نے فراہم کی اُس کیلئے وزیر اعلی کے مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا۔کہ 2015میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر پائپ لائن تباہ ہوئے۔ لیکن ہم نے فوری طور پر ریشن، گرین لشٹ، کوراغ، چرون، بونی، اوی، اوی لشٹ، دوما دومی، ہرچین، بروک بانگ وغیرہ بحال کئے۔ اسی طرح یارخون، ورکوپ، شوتخار، زنگ لشٹ،نشکوہ، مداک، زیزدی، زاینی، اطول، موردیر، کوشٹ بالا ، کوشٹ پائین میں بھی واٹر سپلائی بحال کئے ۔ انہوں نے صوبائی حکومت کی طرف سے شجر کاری مہم کو انتہائی کامیاب قرار دیا۔ اور کہا۔ کہ اس مہم کے تحت اپر چترال میں شجر کاری کو فروغ ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اسمبلی میں کاغلشٹ کو ہاؤسنگ سکیم ہونے سے بچایا۔ قانون سازی میں اپنی بساط سے بڑھ کر کوشش کی۔ انہوں صوبائی سیٹ کی بحالی سے متعلق کہا۔ کہ اس سلسلے میں اُن کی کوششیں جاری ہیں۔ قبل ازین صدر پریس کلب چترال ظہیر الدین نے مہراکہ پروگرام اور مہمان مقرر کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا جبکہ پروگرام میں موجود افضل قباد بونی، غلام مصطفی ایڈوکیٹ، عالمزیب ایڈوکیٹ اور محمد حکیم ایڈوکیٹ نے سوالات کئے۔ جن کے ایم پی اے نے انہوں نے جوابات دیے۔ صدر ڈسٹرکٹ بار ساجد اللہ ایڈوکیٹ نے پروگرام کو سمیٹے ہوئے کہا۔ کہ ایم پی اے سید سردار حسین نے ترقیاتی منصوبوں کی جو تفصیل پیش کی ہے۔ اس کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ انہوں نے اگر اتنا کام کیا ہے۔ تو واقعی قابل تعریف ہے۔ انہوں نے آیندہ تمام نمایندگان پر مشتمل مہراکہ پروگرام منعقد کرنے کا مشورہ دیا۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات