2018کے سال کے آغاز کے ساتھ جشن منا یا گیا۔ ناچ گانے، مٹھائی بانٹنے، آتش بازی کا مظاہرہ کر نے، ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک بادی دینے کی روایت ادا کی گئی۔ جس طر ح ہم دوسروں کی تہذیب اور رسم و رواج اور لباس و کلام کواپنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں یہ روایت بھی اسی جذبے کی ایک کڑی ہے۔ کیونکہ عیسوی کیلنڈر سال کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں اور ہم بحیثیت مسلمان اپنی انفرادی شخص کا اپنانے کو اہمیت نہیں دیتے۔ اس قسم کے کلچر کو اپنا تے وقت ہمیں یہ احساس ہو نا چاہئے کہ بھلا ایک کیلنڈر کے حساب سے ایک سن عیسوی سے دوسرے سن عیسوی میں داخل ہو ئے مگر اس حقیقت سے مغر نہیں کہ زندگی کی تجوری سے ایک سال کا قیمتی اثاثہ ہاتھ سے چلا گیا۔ وقت کی کتاب کا ایک ورق پلٹ گیا۔ اس ورق میں جو کچھ ضبط تحریر میں آئے ان کے اذالے کے امکانات ہاتھ سے چھوٹ گئے۔ زندگی کے یوں بیتنے والے ایام ہمارے لئے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے مذہب ہمیں ہر گزرنے والے لمحات کے بارے میں خود اختسابی کا درس دیتا ہے۔ تاکہ اس بنیاد پر مستقبل کا نقشہ تیار کیا جا سکے۔
یو ں 2017کے اختتامی روز کا غروب ہو نے والا سورج پھر اسی روز انسانوں پر بیتنے والے لمحات کو لیکر دوبارہ کھبی طلوغ نہیں ہو گا۔ عقل و خرد کی ممیوری کا رڈ میں محفوظ گزرے ہو ئے لمحات کی رہنمائی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہم نے دین و دنیا کی بھلائی کیلئے کیا کمائے۔ “اپنے لئے جینا تو کیا اگر جینا ہے تو دوسروں کے لئے جیا جا ئے “کے مصداق اوروں کے کہاں تک کام آئے۔ رات کے اندھیرے میں جبین نیاز اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز کئے اور رضا ئے الہی کے حصول کے لئے اشک پرنم کئے یا تاریک راتوں کو اعمال بد کے لئے زرین موقع کے حساب سے نا فر مانیوں کی نذر کئے۔ قرطاس اعمال کو رب کی خوشنودی کے رنگ سے مزین کئے یا نا فر مانیوں سے سیاہ۔ یہ اور اس قسم کے بہت سے امور کسی بڑے زات کے سامنے یقینی جوابدی سے متعلق میں ہمیں آنے والے دنوں کے لئے رہنمائی کے کام آئیں یہاں سال گذشتہ ہمیں یہ دعوت فکر بھی دے رہا ہے کہ اس سال کے دوراں کتنی قیمتی زندگیوں کی شام ہو گئی اور کتنے نئے آنے والوں نے آنکھیں کھولیں۔ کتنوں کے گھر اجڑ گئے کتنوں کے مقدر کے تارے جگمگائے۔ کتنے تان جوئن کو ترستے سال گزرے اور کتنے عیش و آرام کی دنیا میں محور رہے۔ کتنے ہم حپسوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہے اور کتنے دوسرے کے درد اور غم نانٹتے رہے۔ کتنوں کو ظلم و ستم کے شکنجوں کی سختیوں سے واسطہ رہا اور کتنے انصاف سے فیصیابی کی نعمت سے سر فراز رہے، کتنے نئی جیون کے بندھن میں جڑ گئے اور کتنے شریک حیات ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ سال کے اندر کھلنے والے پھول کتنوں کیلئے سہرے اور گلے کے ہار بنے اور کتنوں کے قبر وں پر مر جھا گئے۔ یوں زندگی کی یہ ریت جا ری رہی اور 2017کے آخری دن کا سورج غروب ہوا۔ ہمیں دعا کر نا چاہئے کہ اللہ رب العزت مقدر میں لکھے زندگی کے ایام کو اپنی رضا اور دین حق کی سر بلندی کا کام میں لائے۔ اور
خدا کر ے کہ میری ارض پاک پر ارے وہ فضل گل
جسے اندیشہ ذوال نہ ہو