”اپنے بیٹے محمد اشفاق جاوید کے نام“
میرے لخت جگر سنو۔۔ میں وہ ساری باتیں اور جذبات جو آپ کو بتا نا چاہتا ہوں۔۔شاید زبانی آپ کو نہ بتا سکوں یا تو سنتے سنتے تمہیں ناگوار لگیں یا تمہارے پاس اتنا وقت نہ ہو یا تو ان کو ایک کان سے سن کر دوسرے کا ن سے اڑا دو۔۔اس لئے آپ کے نام ایک نامہ لکھ رہا ہوں شاید دنیا کا کوئی باپ ہوگا جس کے جذبات ا پنے لخت جگر کے لئے ایسے نہ ہوں۔ مجھے یقین ہے سب کے مجھ جیسے ہیں ۔۔اولاد ہر باپ کی امید کے گلستان کے پھول ہوتے ہیں۔۔میں نے سوچاکہ اگر تو یہ خط نہ پڑھے گا تو دنیا میں موجود کوئی باپ پڑھے گا تو اس کوتسلی ہو جائے گی کہ اس کے جذبات بھی اسی طرح ہیں۔۔ بیٹا!حضرت آدم ُ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی۔۔حضرت یعقوب ٰنے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی۔صدیق اکبر ؓ نے ا؎پنے بیٹے سے کہا۔۔بیٹا!سچائی کی تلوار بن جا۔۔حضرت عمر فاروقؓ نے کہا۔بیٹا!عدل کا ترازو بن جا۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے مرتے وقت خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی اولاد کو حلال رزق کھیلایا۔۔۔ حضرت عبدالقادر جیلانی کی ماں نے کہا کہ بیٹا! کبھی جھوٹ مت بولنا۔۔حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو بڑی تفصیل سے نصیحت کی یہاں تک فرمایا۔۔بیٹا! اونچی آواز میں مت بولنا۔۔سب سے بری آواز گدھے کی ہے۔۔ان سب کے سامنے میری کیا حیثیت ہے بیٹا! میں ایک ناچیز زرہ ہوں۔۔۔مگر باپ ہوں۔۔ایک کمزور ناداں ناواقف سا۔۔ایک کم فہم کم علم ناگوار سا۔۔ایک خواب دیکھنے والا۔۔امید کا پل باندھنے والا۔۔آرزووں کی جنت آباد کرنے والا۔۔حسین مستقبل کا پجاری۔۔جب آپکے دنیا میں آنے کی خبر مجھے دی گئی تو اس سمے میری عجیب درگت ہوئی مجھے تمہاری ماں پہ بہت پیار آیا۔۔میرا سر خود بخود مہربان اللہ کی مہربانیوں کے آگے جھک گیا۔۔میں نے سوچا کہ میں ”مکمل“ہو گیا ہوں۔۔اب میں کسی کو ”اپنا“ کہہ سکتا ہوں اب دنیا میں میرا تعارف ہو جائے گا۔۔اب میں کسی کو حکم دے سکوں گا۔کسی کو بلا جھجک نصیحت کر سکوں گا۔میں کسی کی نسبت بن سکونگا۔ کوئی میرا حوالہ بن سکے گا۔۔اس سمے میں نے خواب دیکھا بیٹا!کہ تو مجھے دیکھ کے ہنس رہا ہے۔۔تیری آنکھوں میں ایک چمک ہے۔۔ایک روشنی۔۔ میرا حوالہ۔۔تیری آنکھیں کچھ ڈھونڈ رہی ہیں۔۔ تو بلک رہا ہے۔۔تو نے اپنی ماں سے میری محبت چھین لی ہے۔۔یہ میری پہلی قربانی ہے بیٹا!۔۔اب تو بات کرنے لگا ہے۔۔مجھے تیرے حرف حرف اور لفظ لفظ کی حفاظت کرنی ہے۔۔ تیرے لہجے میں مٹھاس بھرنا ہے۔۔تیرے جملوں کو احترام کی خلغت سے مزین کرنا ہے۔۔تجھے بتانا ہے کہ تلوار کا زخم زبان کے زخم سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔۔اب تو پاؤں پاؤں چلنے لگا ہے۔۔تیرا ہاتھ پکڑ کر گلشن انسانیت کی سیر کرنی ہے۔۔تجھے ہر پھول کے بارے میں بتانا ہے۔۔اس میں رشتووں کے پھول۔۔دوستی کے پھول۔۔شرافت احترام کردار کے پھول۔۔قربانی خدمت اورایثارکے پھول۔۔بیوفائی حسد اور دشمنی کے کانٹے۔۔عربت افلاس اور مجبوریوں کے کانٹے۔۔لالچ حرس اور ہوس کے کانٹے۔۔سارے کانٹے اور پھول تجھے دیکھانے ہیں اور ان کے بارے میں تجھے سمجھانا ہے۔۔۔پھر تجھے بتانا ہے کہ تو بھی اسی گلشن کا ایک پھول ہے۔۔تجھے قسم دلانا ہے کہ تو پھول بن۔۔ کانٹا نہ بن۔۔تیرے کردار کی خوشبو سے یہ گلشن معطر ہو۔۔اب تجھے سکول بھیجنا ہے تعلیم و تربیت کے ناخداؤں کے حوالہ کرنا ہے۔پھر تیری ہر ضرورت پوری کرنی ہے۔۔یہ لو وردی ٹوپی۔۔یہ لو کاپی قلم۔۔یہ لو کتابیں۔۔پھر جیب خرچ۔۔تمہاری جیب کبھی نوٹوں سے خالی نہ ہو۔۔ اگر ایسا ہوگا تو اپنے ساتھیوں کے سامنے بے حوصلہ ہو جاؤگے پھر تیرے اساتذہ کا احترام کرنا۔۔پھر تیرے لیے خواب دیکھنا۔۔لمحے لمحے تیری آنکھوں کا مطالعہ کرنا کہیں اس میں افسردگی نہ اترے۔۔تیری خوراک پوشاک کا خیال رکھنا۔
پھر تیرے ہر ٹسٹ امتحان کے لئے کامیابی کی دعائیں کرنا۔۔پھر تیرا لاپرواہ خود سر معرور ہونا اور میرا دل ہی دل میں کڑنا۔۔دوسروں کے اچھے بچوں پہ رشک کرنا۔۔یہ سب میری زندگی کے لمحے لمحے ہیں جو تیرے لئے خواب دیکھتے دیکھتے کٹ گئے ہیں۔۔اب تو بڑا ہوگیا ہے۔جب تیری تعلیم مکمل ہو جائے گی تو کبھی یہ نہ کہنا کہ مکمل ہوگئی۔۔تو شریف بننا اپنی شرافت کو جتانا مت۔۔تو عظیم بننا اپنی عظمت کی تشریح نہ کرنا۔۔تو با صلاحیت بننا مگر اپنی بے صلاحیت ہونے کو بھولنا نہیں۔تو خوبصورت اور قیمتی لباس پہننا مگر ان چیتڑوں کو مت بھولنا جو تمہارے ارد گرد لوگوں کے بدن پہ ہیں۔۔تو قیمتی گاڑی میں بیٹھنا مگر اس ٹیکسی کو نہ بھولنا جس میں لوگوں کو ایک پاؤں رکھنے کی جگہ ہوتی ہے۔۔تو آرام کرسی پہ بیٹھنا اور نرم بچھونوں پہ سونا مگر اس خالی فرش کو نہ بھولنا جو کسی مجبور کی قسمت میں ہوتا ہے۔۔تو ایک بڑے دفتر میں چمکتی کرسی میں بیٹھنا مگر باہر اپنے انتظار کرنے والوں کا دھیان رکھنا۔۔تو اپنے اختیارات استعمال کرنا مگر حق اور انصاف کی دولت ہاتھ سے نہ گنوانا۔۔تو بے شک قہقہے لگا کے ہنسنا مگر کسی مجبور کی مجبور ی،کسی نادان کی نادانی،کسی غریب کی غربت،کسی تنہا کی تنہائی پہ نہ ہنسنا۔۔زندگی مختصر، وقت بے وفااور خوشیاں آنی جانی ہیں۔۔تو میری باتوں کا برا نہ منا نا۔۔۔بڑوں کی باتیں سچ ہوا کرتی ہیں۔۔میرے منہ سے نکلے ہوے لفظ لفظ تیرے لئے سوغات ہیں ان کا احترام کرو گے۔۔میرے چاند اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات