اگست 1974ء میں جہاں ایف سی کیمپ تھا وہاں اب حیات اباد کا فیز – 7 ہے قریب ہی فیز – 1 ہے درمیان میں 5فیز اور بھی ہیں یہ پشاور کی جدید بستی ہے مگر بد انتظامی کی وجہ سے اس بستی کا براحال ہو اہے 45سال پہلے اس کا خواب سابق سینئر وزیر حیات محمد خا ن شیر پاو نے دیکھا تھا اس لئے پشاور کی یہ جدید بستی ان کے نام سے منسوب کی گئی پشاور شہر اور صدر کے شرفاء نے حیات اباد کو مسکن بنایا صوبے کے دور دراز علاقوں اور مختلف اضلاع سے آنے والے تاجروں،صنعتکاروں اور سرکاری ملازمتوں سے وابستہ شہریوں نے بھی عمر بھر کی جمع پونجی اس جدید بستی میں لگائی شہر پشاور کو جنرل مشرف کے دور میں 4ٹاونوں میں تقسیم کیا گیا تو یہ بستی ٹاوں – 4 کی حدود میں آگئی قبائلی علاقہ جمرود اور باڑہ کی حدود سے ملحق یہ مثالی بستی تھی صاحب طرز شاعر یوسف رجا چشتی نے بدھائی سے اپنا گھر یہاں منتقل کیا پشاور کلب کو بھی خیر باد کہہ کر حیات اباد میں گھر بسایا پروفیسر محسن احسان نے حیات اباد کو پشاور یونیورسٹی پر ترجیح دی پروفیسر پریشان خٹک،ڈاکٹر محمد انور خان،پروفیسر شمشیر،ڈاکٹر محمد ساعد اور سینکڑوں دانشوروں نے حیات اباد کو بسانے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا شاعر نے کہا ”بستی بسانا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے“ چنانچہ نصف صدی کے قریب یہ بستی آباد ہوئی18نومبر 2017ء کو حیات اباد کی مثالی بستی سے میرا گذر ہو اتو عجیب سا لگا مجھے اپنی آنکھوں پر باور نہیں آیا مارکیٹوں کے آس پاس، مسجدوں کے قریب،خالی پلاٹوں کے اندر گندگی کے ڈھیر دیکھ دیکھ ہم عادی ہو چکے ہیں اب گندگی دیکھ کر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوتا حیات اباد کی مثالی بستی کے اندر گلیوں کے سائن بورڈ چوری ہو گئے ہیں اس بات کا بے حد دکھ ہوا پہلے ایسا ہو تا تھا کہ فون پر پتہ پوچھ لیا جاتا، فیز اور سیکٹر کے ساتھ گلی نمبر اورگھر نمبر دے دیا جاتا تھا اب فون کرنے پر بتا یا جاتا ہے کہ سائن بور ڈ کوئی نہیں رہا سیکٹر اورگلی کا کوئی نشان نہیں رہا تم فلان مارکیٹ میں آجاؤ، میں اُس جگہ تمہارا انتظارکرونگا آپ کو باور نہیں آتا کہ میں حیات ابا د کی مثالی بستی میں جارہا ہوں سیکٹر کا سائن بورڈ چوری ہو گیا ہے گلی کا سائن بورڈ چوری ہو گیا ہے فیز کا سائن بور ڈ چوری ہو گیا ہے گھروں کے نمبر بے معنی ہو گئے اس لئے مٹادیے گئے ”اب ڈھونڈا نہیں چراغِ رُخِ زیبا لیکر“تین مسجدوں میں اس پر بحث ہوئی معز زین اور علماء نے حیات اباد کی گلیوں کے نام اور سائن بورڈ بحال کرنے سے معذوری ظاہر کی ٹاؤن انتظامیہ، نیبر ہڈ کونسل، نا ظمین، کونسلر پولیس، مجسٹریٹ، پی ڈی ا ے حکام سب اس معاملے میں بے بس ہیں وہ کہتے ہیں کہ نشے کے عادی اور ہیر وئنچی ہماری بستی کے سائن بورڈ اکھاڑ کر لے جاتے ہیں کباڑ میں فروخت کر کے نشہ خرید تے ہیں گویا یہ بھی نامعلوم افراد کی فہرست میں ڈالنے کے لائق ہیں ہم مانتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کا بلدیاتی نظام مثالی ہے مگر اس مثالی نظام میں حیات اباد کی مثالی بستی کے سائن بورڈ چوری ہو گئے ہیں ان کی جگہ نئے سائن بورڈ نہیں لگائے گئے یہ بھی حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ گذشتہ ماہ این اے – 4 کے ضمنی انتخابات اسی حلقے میں ہوئے کسی نے پرویز خٹک، امیر مقام یا خوشدل خان کی توجہ اس طرف نہیں دلائی گلی گلی، محلہ محلہ ووٹ مانگنے والوں نے یہ نہیں دیکھا کہ گلیوں اور محلو ں کے سائن بورڈ اکھاڑ کر چورلے گئے کاش اس حلقے سے کا میاب ہونے والے ارباب عامرایوب ہی اس طرف توجہ دیتے شاید وہ بھی غالب کے معتقد و پیر وکار ہیں
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کردفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
ن لیگ کی ازمائش
سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لئے لندن جا نے کا پروگرام موخر کر کے رابطہ عوام مہم کو تیز کر نے او ر ایبٹ اباد جلسے کے بعد کوئیٹہ سمیت دیگر شہر وں میں جلسوں سے خطاب کر نے کا فیصلہ کیا ہے اگلے ہفتے سے اس مہم کی جھلکیاں اخبارات میں آئینگی ایسا لگتا ہے کہ سابق وزیراعظم 1970 ء کے عشر ے میں گذرنے والے ایک اور سابق وزیراعظم ذولفقا ر علی بھٹو کے نقش قدم پر چل کر اُسی کے انجام سے دو چار ہو نا چاہتے ہیں مگر دونوں میں کوئی مماثلت نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ بھٹو نے بھی مقدمات کی پیر وی کو چھوڑ کر تقر یر یں کر نے کا سلسلہ شروع کیا یہاں تک کہ انہوں نے عدالت میں بھی ڈھائی گھنٹہ شستہ انگر یز ی میں زور دارسیاسی بیان دیا تاریخ سے بسمارک، چرچل اور دیگر عظیم رہنما ؤں کے حوالے دیے جمی کارٹر کے خط کا ذکر کیا تیسر ی دنیا کی محرومیوں کا قصہ دہر ایا، فیدل کا سٹر و اور دیگر لیڈروں کی مثالیں دیں ان کی تقر یریں بہت اچھی تھیں مگر ان کی ضرورت ان تقر یر وں سے زیادہ قانونی معاملات کی طرف توجہ دینے کی تھی جو اُن سے نہ ہو سکی نواز شریف کی تقر یر میں وہ حسن،وہ چا شنی اور معلومات کی فراوانی یا تقر یر کی روانی بھی نہیں ہے تقریر کے اندر جان بھی نہیں ہے بھٹو امریکہ کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور دلیل دے رہے تھے نواز شریف کہہ رہے ہیں مجھے نکلو ا یا گیا، سزا دلو ائی گئی مگر امر یکہ یا کسی اور طاقت کا ذکر گول کر جاتے ہیں اس لئے عوام کے ذہنوں میں کسی نکتے کی وضاحت نہیں ہو تی اگر کسی دوست کو لاہور کے اخباری حلقوں کے قریب دوچار دن گذارنے اورخبروں کا نچوڑ دیکھنے کا موقع ملے تو چار نکات سامنے آتی ہیں میرے دو دن لاہور میں گذرے نومبر کی 15 تاریخ سے 17 تاریخ تک میں نے لاہور کے اخبار نویسوں کے ساتھ گذارا مخالفین سے زیادہ شریف فیملی کے حامیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ن لیگ کی ازمائش کے جو نکات سامنے آئے وہ چشم کشا بھی ہیں حیرت افزا بھی پہلا نکتہ یہ ہے کہ جنرل مشرف اور نواز شریف کی معزولی کا سبب ایک ہی ہے چائنا پاکستان اکنا مک کوریڈور نہ ہوتا تو پرویز مشرف اب تک اقتدار میں ہوتے آصف علی زرداری نے پاک ایرا ن گیس پائپ لائن اور سی پیک کے معاملے پر کمال عیاری سے کام لیا اور اپنی مدت پوری کر لی پرویز مشرف اور نوازشریف ایسا نہ کر سکے امریکہ نے دونوں کو عبرت کا نشان بنا دیا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نواز شریف نے گھر کو سنبھالنے میں کو تاہی دکھائی،ڈان لیکس کا چکر ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچا بیٹی اور داماد کی وجہ سے گرفت میں آگئے اورجکڑ لئے گئے تیسرا نکتہ یہ ہے کہ تیسری بار حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے قربانی دینے والے جاوید ہاشمی کی طرح کئی لیڈروں کو نظر انداز کر کے چُوری کھا نے اور دودھ پینے والے مجنونوں کو اہمیت دی چوہدری نثار نے اکتوبر 1999 ء کی طرح جولائی 2017 ء میں بھی بے وفائی کی خواجہ آصف، سعد رفیق اور عابد شیر علی نے نواز شریف اور ن لیگ کے لئے مشکلات پید ا کئے ایوان صدر، سپیکر یا سینیٹ کے چیئر مین کی نشست پر مسلم لیگ کا کوئی ورکر ہوتا تو مشکلات اور ا ٓزما ئشوں کے دور میں سہولت ہوتی راجہ ظفر الحق، شیخ روحیل اصغر، جاوید ہاشمی اور ان کی طرح دیگر مسلم لیگی لیڈروں کو اہم عہد وں پر آگے لایا جاتا تو 5 سال ارام سے پورے ہوسکتے تھے چوتھی اہم بات یہ ہے کہ ڈان لیکس کی طرح شریف فیملی کے اندر اختلافات کو ہو ادی گئی شہباز شریف کے صبر کا بار بار امتحان لیا گیا شہباز شریف کو بھائی سے جدا کر نے کی ایسی کوششیں گھر کے اندر کی گئیں جس طرح مرتضیٰ بھٹو کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے جدا کر نے کی مہم چلائی گئی تھی مگر شہباز شریف کی برد باری، فراست اور قابلیت کی وجہ سے یہ بات اب تک پردے میں تھی اب یہ پردہ چاک ہوا ہے اور یہ ن لیگ کے زوال کا بڑا سبب ہے اب بھی وقت ہے مریم نواز،کپٹن صفدر، خواجہ آصف، سعد رفیق اور عابد شیر علی کو خاموش کر دیا جائے نواز شریف اپنی رابطہ عوام کی ناکام مہم ختم کردیں تو معاملات سدھر سکتے ہیں پارٹی کی قیادت میاں شہباز شریف کے ہاتھو ں میں دیدی جائے تو ن لیگ آزما ئشوں سے سر خرو ہو کر نکلے گی اور پارٹی کی حیثیت بحال ہوگی ورنہ اس آزما ئش سے عہد ہ بر آ ہو نا مشکل ہے۔