گوادر سنٹرل ایشیا CPECکی تعمیر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی حکومتیں ملکر مرکزی حکومت کے تعاون سے خود سنٹرل ایشیا کے ممالک سے بات چیت کرکے تعمیر کرسکتے ہیں۔گوادر سے براستہ شمالی وزیرستان،جنوبی وزیرستان،ڈیرہ اسماعیل خان،کرک،کوہاٹ،پشاور،تیمر گرہ دریائے پنچکوڑہ کے ساتھ ساتھ مہمند اور باجوڑ،میدان دیر لواری ٹنل چترال،گرم چشمہ،ڈورہ پاس،زیباک،اشکشیم،تاجکستان،دوشمبے صرف2100کلومیٹر کا مختصر ترین زمینی راستہ سنٹرل ایشیاء کے مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک کے خرچ اور تعاون سے گوادر اور کاشغر CPECسے بہتر سہولیات اور ترقیاتی دیگرمنصوبوں کے ساتھ اُس سے کم خرچ پر تعمیر کیا جاسکتا ہے۔روس سے نو آزاد تمام ممالک اور افغانستان کا تعاون بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اس CPECکے تعمیر کے تمام اخراجات 10سے پندرہ ممالک برداشت کرینگے۔پاکستان صرف زمین بڑے آسانی سے شمال مغرب میں 80فیصد غیر آباد علاقوں میں فراہم کریگا۔اور اس کی تعمیر بھی،200کلومیٹر فی ملک کے حساب سے تمام ممالک تقسم کرکے بھی قلیل مدت میں پورہ کرسکتے ہیں۔سنٹرل ایشیا کے تمام ممالک کو صرف پاکستان ہی سمندر تک رسائی کا پُرآمن اور مختصر ترین راستہ فراہم کرسکتا ہے۔اور حالات کے بہتر ہونے کی صورت میں انڈیا سے افغانستان اور سنٹر ل ایشیا کے زمینی رابطے کو بھی اس شاہراہ کی تعمیر سے بحال رکھا جاسکتا ہے۔گوادر سنٹرل ایشیا کے اس مختصر ترین راستے کی تعمیر سے روس اور اُس سے ملحقہ تمام ممالک کا درینہ خواب بھی پورہ ہوجائیگا اور اس شاہراہ سے یورپ کے تمام ممالک وسطحی ایشیا کے تمام ممالک ایران،انڈیا،جاپان اسٹرلیا،انڈونیشیاء،مالیشاء اور جزائیر غرب الہند کے تمام ممالک زمینی راستے سے منسلک ہوجائیں گے یورپ کے تمام ممالک سے سیاح اپنے گاڑیوں میں ہی سو سے زیادہ ممالک کاسفر کرکے اپنے اپنے وطن واپس جاسکیں گے۔اس شاہراہ کے تعمیر سے ہی لواری ٹنل پر خرچ شدہ پچاس ارب سے زیادہ کے اخراجات کی قلیل مدت میں واپسی بھی ممکن ہوگی اور بہت جلد اس شاہراہ سے کے پی کے اور بلوچستان کے80فیصد پسماندہ علاقے اس بین الاقوامی شاہراہ کا گذرگاہ بن کر قلیل مدت میں ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہوجائیں گے۔اس شاہراہ کی تعمیر سے بلوچستان میں علحیدگی ہند تحریک کا کمر ٹوٹ جائیگا۔دہشت گردی کے لئے موزون دور دراز علاقے قومی دارے میں شامل ہوجائیں گے۔خیبرپختونخواہ کی حکومت اس سلسلے میں پیش قدمی کرکے لیڈنگ رول اداکرسکتا ہے۔خیبرپختونخواہ کے تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ بناکر پی ٹی آئی کی حکومت 2018کے الیکشن سے پہلے اس عظیم ہر لحاظ فائدمند بین الاقوامی اہمیت کے حامل کام کاآغاز کے پی کے میں مضبوط حیثیت حاصل کریگا۔نہایت قابل عمل تجویز یہ ہے کہ دستیاب ذرائع آمدورفت سے استفادہ شروع کیا جائے کیونکہ پشاور سے تاجکستان براستہ ڈورہ پاس ابھی بھی ٹرک ایبل سڑک بدخشان سے گذر کرجاتی ہے۔نہایت معمولی مرمت کرکے اسی سال تاجکستان اور بدخشان سے پشاور کی بسیں چلائی جاسکتی ہیں جو افغانستان اور تاجکستان کے بھی مفاد میں ہوگا۔چونکہ اس اہم کام نہایت دیر ہوچکی ہے لہذا مزید وقت ضائع کیے بغیر نومبر2017یا دسمبر2017میں چترال میں ریجنل سہ روزہ تجارتی اور سیاحتی کانفرنس منعقد کرکے موجودہ وسائل سے استفادے کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔اور پھر تاجکستان میں ایسی نوعیت کا سہ روزہ کانفرنس تمام نو آزاد اسلامی ممالک پاکستان،ایران اور افغانستان ترکی کا بلاکر گوادر،سنٹرل ایشیاء CPECپر پیش رفت کیا جاسکتا ہے۔اگر صوبہ پنجاب چین،ایران اور حتکہ انڈیا سے چائینز تجارت بجلی کے منصوبے حاصل کرسکتا ہے تو کے پی کے اور بلوچستان،سنٹرل ایشیا،افغانستان،ایران اور چائینا سے تجارت اور شاہراہوں کی تعمیر کے معاہدے کیوں نہیں کرسکتے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات