جس کھیت سے دھقان کو۔۔۔۔ضلع چترال کا بٹوارہ۔۔پروفیسر رحمت کریم بیگ

Print Friendly, PDF & Email

پی ٹی ائی کی حکومت پر اج کل نئے ضلعے اور تحصیلیں بنانے کا بہت عوامی دباوء ہے ہر طرف سے لوگ اس جنون میں مبتلا ہیں۔ کہوار زبان میں ایک کہاوت ہے کہ مردہ نئے کپڑے کے کفن پر خوش مگر اس کے سامنے جو جوابدہی کے مراحل ہیں ان کا اسکو کچھ علم نہیں ہے۔ چترال بھی اسی مرحلے سے گذر رہا ہے، ریاست چترال انیس سو انہتر سے پہلے ایک ریاست اور دو ضلعوں میں تقسیم تھا اور یہاں بھی ریاستی قوانین کی جگہ پو لیٹٰکل راج تھا کسی کی کوئی شنوائی نہیں تھی۔ پو لیٹیکل ایجنٹ سیاہ و سفید کا مالک تھا پھر اسے ایک ضلع بناکر کے پی کے میں ضم کردیا گیا اور اب اس کو دوبارہ دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا جنوں سوار ہے اس تقسیم کے کچھ فوائید بھی ہیں اور بہت کچھ خراب پہلو بھی ہیں افسوس: دونوں فریقوں کو دوسرے کی بات سمجھنے کا ارادہ نہیں۔
دوسری چیز اس کے نام پر ایک بحث کی صورت میں ہے کہ نام ضلع مستوج ہو یا اپر چترال۔ اس سلسلے میں میری رائے کچھ یوں ہے کہ ہم چترالی ہیں بروغل سے ارندو تک ہم چترالی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں لفظ چترال ہماری پہچان ہے چترالی کا ایک خاص امیج بنا ہوا ہے اور اسی بنیاد پر چترال سے باہرکے لوگ بھی ہمیں کسی حد تک اعتماد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہمیں اس چیز پر فخر ہے اور ہم کسی بھی قیمت پر اس بنے بنائے شہرت کو چھوڑ نا نہیں چاہتے۔ میں اس بارے میں upper chitralاور
lower chitral نام سے متفق ہوں اور مجھے چترالی ہونے پر فخر ہے اور میں اسی نام کو برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ میری اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے بھی گذارش ہے کہ وہ اس چیز کو متنازعہ نہ بنائیں شکریہ
پروفیسر رحمت کریم بیگ
03435911941